ندا فاضلی نے کہا ہے ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا عمران خان اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران دن کو جب سو کر اٹھتے تو پاکستانیوں کو رات بھر یہ خواب دیکھنے کے لئے جگاتے کہ جب ان کا وزیر اعظم ایماندار ہو گا تو ملک ترقی کرے گا، ملک ترقی کرے گا تو عوام خوشحال ہوں گے، پاکستان قرض لینے کے بجائے دوسرے غریب ممالک کو قرضے دے گا۔ آپ کا وزیر اعظم ایماندار ہو گا تو نیچے خود بخود کرپشن اور لوٹ مار ختم ہو جائے گی۔یہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126روز ہ رتجگے میں دیکھے خوابوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں قوم نے اپنے مقدر لکھنے کا اختیارعمران خان کو سونپ دیا اور ترقی و خوشحالی روزگار کی فراوانی اور بے لاگ احتساب کا انتظار کرنے لگے۔چوروں کے دور میں 55روپے میں ملنے والی چینی 110روپے میں، کلو آٹا 35روپے کی بجائے 70روپے میں، 145روپے میں ملنے والا گھی 245روپے میںیہ سوچ کر خریدنا قبول کر لیا کہ اگر ملک کو خود مختاری اور خود انحصاری کی منزل پانے کے لئے قرضوں سے نجات مل سکتی تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے ڈی چوک میں دکھائے سہانے خوابوں کا جادو اس طرح سر چڑھ کر بولا کہ تین سال تک مہنگائی بے روزگاری کی وجہ سے جرائم اور قتل و غارت میں اضافہ بھی اس جادو کا اثر توڑ نہ کر سکا۔یہ تو بھلا ہو خود تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیدار کا،جنہوں نے گہری نیند میں سوئی قوم کو یہ کہہ کر جھنجھوڑا کہ تحریک انصاف کے دور میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔پٹواری پہلے جو کام 5ہزار روپے لے کر تا تھا اب 20ہزار میں ہوتا ہے، خوشحالی کی غنودگی کو تحریک انصاف حکومت کے اپنے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے یہ بتا کر توڑنے کی کوشش کی کہ ایک سال کے دوران فراڈ، مالی بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیوں سے قومی خزانے کو 75 ارب کا نقصان پہنچا۔قوم ترقی کے خواب سے بیدار ہوئی تھی کہ عالمی ایجنسی نے خبردار کیا کہ کرپشن کے انڈیکس میں ان کا ملک ایک درجے اور ترقی کر گیا ہے۔ قوم اس ہربڑاہٹ میں سے ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ معلوم پڑا کہ جس حکومت کو غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کر کے خود انحصاری کی منزل کی طرف بڑھنا تھا وہ تو قرضوں کی دلدل کی طرف برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے ۔2018ء میں پاکستان پر 249کھرب قرضہ تھا و2021ء میں بڑھ کر 398کھرب 59ارب ہو چکا ہے۔جس حکومت کو بے رحم احتساب کرنا تھا اس کے اپنے وزیروں مشیروں پر کرپشن کے الزامات لگے رہے ہیں۔جس حکومت نے قبضہ مافیا کے خلاف جہاد کرنا تھا اس کے اپنے ایک رکن پر 253ایکڑ غیر قانونی زمین کی فروخت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ نیب ایک وفاقی وزیر سے جائیداد اور اثاثوں کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت پرکورونا کی وبا کے دوران ماسک سمگلنگ کا الزام لگ رہا ہے۔ پنڈورا باکس والوں نے خبر دی کہ جن آف شور کمپنیوں کے ذریعے قومی دولت لوٹنے کے الزام میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کی تحریک اٹھائی گئی تھی، ایسی آف شور کمپنیاں تو وزیر اعظم کے وزیروں نے بھی بنا رکھی ہیں۔بی آرٹی کے49 ارب کے منصوبے کو 66ارب 43کروڑ تک بڑھا دیا گیااور نیب لاگت میں اضافے کی وجوہات کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ جونواز شریف پر چہیتوں کو نوازنے کا الزام دھرتے تھے ان کے اپنے وزیر اعلیٰ پر مالم جبہ کیس میں 275ایکڑ سرکاری اراضی لیز پر دینے کا الزام نیب لگا جا رہا ہے۔انصاف۔ شفافیت ۔میرٹ اور احتساب کا خواب جب ٹوٹا تو عوام گل وبلبل کو ایک دوسرے کے روبرو کرنے کی بجائے حضرت آتش کی طرح یہ دھائی دینے لگے: نہ پوچھ عالم برگشتۂ طالعی آتش برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے 2018ء کے بعد قوم کرپشن لوٹ مار بے انصافی کی برستی آگ کو بجھانے کے لئے میرٹ انصاف اور شفافیت کی بارش کی آرزو کر رہی تھی جب الٹی گنگا بہنے کا احساس ہوا تو دھائی دینے لگی ۔ انصاف اور احتساب کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل کے احتساب کا واویلا شروع ہوا۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کے روڑے سے جو خوشحالی کے لئے کابینہ کی بھان متی کا جو کنبہ جوڑا گیاتھا،اس نے پکڑے جانے پر ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے کر ڈوبیں گے کا منتر جپنا شروع کر دیاجس پر ایماندار وزیر اعظم نے نیب کے دانت نکالنے کا فیصلہ کیا۔تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے نیب آرڈی ننس کی صورت میں فرمان جاری ہوا ہے کہ حکومت ناصرف وزیر اعظم اور ان کی کابینہ بلکہ کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ نیب کے اسی اختیار کی وجہ سے میاں شہباز شریف آشیانہ مقدمات میں جیل کاٹ چکے ہیں ۔آرڈیننس کے مطابق نیب حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت سے نجی کاروبار کے نام پر لوٹ مار کرنے والوںکا حساب بھی نہیں مانگ سکے گی ۔یہی نہیں جن جعلی ٹرانزیکشن کے مقدمات میں زرداری کو مقدمات کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کے وزیر اعظم اور وزیروں مشیروں سے نیب بنک معاملات کا بھی نہیں پوچھ سکے گی۔ سابق حکمران پر تو مہنگے منصوبے لگانے اور مال بنانے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں مگر اب نیب ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی‘پی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلوں پر بھی سوال نہیں اٹھا سکے گی۔ عمران خان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے قوم کو خوشحالی کے سحر میں گرفتار کر کے اپنے تین سال مکمل کر لئے ،چوتھے سال میں حکومت اپنے آپ کو نواز شریف اور زرداری ایسے انجام سے بچانے کے لئے بھی بندوست کرنے کی کوشش کر ر ہی ہے اس طرح اب جا کر عوام پر حکومت کی ایمانداری کھل رہی ہے، کمال تو یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ڈھٹائی سے احتساب اور شفافیت کا ڈھنڈور بھی پیٹا جا رہا ہے مگر اپوزیشن اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے خوداس’’ ایمانداری‘‘ سے مستفید ہو رہی ہے ہاں اگر کچھ تبدیلی آ رہی ہے تو پاکستانیوں کی سوچ میں آ رہی ہے جو سیاستدانوں کو اب سمجھنے لگے ہیں اور اشرافیہ کے اس کھیل کے بارے میں کھل کر بات ہو رہی ہے ۔ اشرافیہ زبان خلق نہ سنے تو اس کی مرضی شائد اسی وقت کے لئے حیدر علی آتش نے کہا تھا: سن تو سہی جہاںمیں سے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا