لاہور کے حلقہ این اے 133 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میںاسلم گل کے 32 ہزار ووٹوں کے نتیجے میںپیپلز پارٹی اور اس کے حامیوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ پارٹی کی پنجاب میں واپسی ہو گئی ہے ۔کیا حلقے کی سیاست اور پس منظر کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اس دعوے سے اتفاق ممکن ہے؟ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک زمانے میں یہ حلقہ پیپلز پارٹی کا ہوا کرتا تھا۔ 1970 کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار اس حلقے سے جیتے اور یہاں کے رہائشیوں کو رہنے کے لیے وہ سیکڑوں گھر دیے جس میں پیپلز پارٹی کے جیالے آج بھی رہائش پذیر ہیں۔ پھر 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی دوبارہ یہاں سے با آسانی الیکشن جیتی۔ 1988کے انتخابات میں بھی اس حلقے نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کامیاب کرایا۔ یہیں سے جہانگیر بدر بھی الیکشن لڑ چکے ہیں ۔ 1990کے بعد ن لیگ اس حلقے میں آئی اور تیس سال میں پانچ مرتبہ اپنے امیدوار کو اسمبلی کے لیے منتخب کرایا۔ گویا یہ حلقہ تاریخی طور پر پہلے پیپلز پارٹی اور پھر ن لیگ کا ہوا کرتا تھا۔ 2013 سے اس حلقے میں تحریک انصاف نے تنظیم سازی کا آغاز کیا ۔ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری ن لیگ کے مقابلے میں اترے تو مسلم لیگ ن کے نواسی ہزار ووٹوں کے مقابلے میں ستتر ہزار ووٹ لے گئے۔ اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ پیپلز پارٹی کے جیالے کہاں چلے گئے اور دوسرا یہ کہ اعجاز چودھری کے ستتر ہزار ووٹ کہاں سے آئے۔ ان دونوں سوالوں کا جواب جاننے کے لیے جب آپ حلقے میں اترتے ہیں اور دہائیوں سے سیاست کرنے اور الیکشن لڑانے والے سیاسی پنڈتوں سے ملتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ اس حلقے میں تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ بنانے والے زیادہ تر لوگ پیپلز پارٹی سے یہاں آئے ہیں ۔ اس کے باوجود یہاں پیپلز پارٹی کے نقوش پا موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ انتخابات میں لاہور کے تمام حلقوں میں پیپلز پارٹی کی بدترین کارکردگی کے برعکس اس حلقے میں اسلم گل ساڑھے پانچ ہزارووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔ پرویز ملک کے انتقال کے بعد اگر یہاں اس انداز میں ضمنی الیکشن ہوتا کہ اعجاز چودھری کی مشاورت سے میدان میں اتارا گیا پی ٹی آئی کا امیدوارن لیگ کی شائستہ پرویز ملک کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہا ہوتا تو اسلم گل کے نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ پیپلز پارٹی کی مہم میں تو جان ہی تب پڑی جب تحریک انصاف مقابلے سے آئوٹ ہو گئی۔ ایسے میں اسلم گل کو دو قسم کا ووٹ پڑا ۔ ایک وہ لوگ جو پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں آئے تھے اب تحریک انصاف کے امیدوار کے نہ ہونے کے باعث انہوں نے سیکنڈ آپشن کو ووٹ دے دیا۔ اور دوسرے وہ لوگ جنہیں خرید لیا گیا۔ اسی سیاسی کشمکش میں اسلم گل 32ہزار ووٹ لے گئے ۔ لازمی طور پر تحریک انصاف کے نکل جانے کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے اہم رہنمائوں نے بھی اپنا پورا زور لگایا اور حلقے میں آ کر پورا ماحول بنایا جس سے ووٹوں کی تعداد میں ضرور فرق پڑا ہو گا۔ لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی شاندار سیاست اور کارکردگی اسے پنجاب میں واپس لے آئی ہے۔ واضح رہے حلقے میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ پیپلز پارٹی نے کروڑوں روپوں کے عوض ووٹ خریدے، دو ، دو ہزار روپے دے کر مسلمانوں سے قرآن اور مسیحی برادری سے بائبل پر حلف لیا گیا۔ اسلم گل نے مسیحی اکثریت والی تمام یونین کونسلز جیت لیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں نے بھی مبینہ طور پر لاکھوں روپوں کے عوض پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالے۔خرم نواز گنڈا پور کے پلاٹ پر پیپلز پارٹی کا دفتر بنا ۔ یہ طاہر القادری ہی کی جماعت ہے جس نے 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف انتخابی اصلاحات کے لیے دھرنا دیا تھا اور آج تمام تر اخلاقیات بالائے طاق رکھتے ہوئے خرید و فروخت کا حصہ بنا گیا۔ ایسے میں یہ کہنا بہت سادگی ہو گی کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں واپسی ہو گئی ہے ۔ اس سیاسی معرکے میں تحریک انصاف نے بھی کئی غلطیاں کیں۔ٹکٹ کے لیے جمشید چیمہ کا انتخاب درست فیصلہ نہ تھا۔ این اے 133 لاہور کے ان حلقوں میں سے ایک ہے جہاں برادریوں کی بنیاد پر ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح کافی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں میواتی ، راجپوت اور آرائیں روایتی طور پر مقابلے پر اترتے ہیں ۔ ایسے میں چیمہ برادری کا ایک شخص حلقے کے لیے اجنبی تھا۔ یوں بھی اعجاز چودھری نے اس حلقے میں خاصی محنت کے ساتھ تنظیم بنائی ہے ۔ ان سے مشاورت کے بغیر کسی شخص کو انتخابی معرکے میں اتارنے کا مطلب حلقے میں پارٹی کو تقسیم کرنا تھا۔ یہ بالکل ایسی ہی غلطی تھی جیسی 2018کے انتخابات کے بعد اٹک میں کی گئی تھی۔ طاہر صادق کی چھوڑی سیٹ پر ان کے مخالف دھڑے کے ایک امیدوار کو ٹکٹ دے دی گئی، وہی ہوا جو ہونا تھا۔ تحریک انصاف اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ ہار گئی۔ یہاں بھی جمشید چیمہ کو اپنی ہی پارٹی کے ورکرز نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حلقے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سازش کے تحت ان کے کاغذات نامزدگی میں غلطی کرائی گئی۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف کی غلطیوں نے پیپلز پارٹی کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں میدان میں آ کر مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پیسے کی کھلے عام تقسیم اور حلف لینے کے ثبوت ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے بڑا قدم نہ اٹھایا اور الیکشن کو اسی صورت میں منعقد ہونے دیاجس نے جمہوری روایات کو مزید گہنا دیا ہے۔ زرداری صاحب کے کیا کہنے ، فرماتے ہیں اب اگلے الیکشن میں پنجاب میں جیالے کی حکومت ہو گی۔