مرحوم صحافی کو گڑ گاواں کی مناسبت سے آئی اے رحمن دہلوی بھی لکھا جا سکتا تھا لیکن چونکہ انہوں نے اپنی نسبت دہلوی نہیں رکھی ،اس لئے کسی اور نے بھی یہ نسبت جوڑنے کا تردّد نہیں کیا حالانکہ مرحوم اپنی رواداری اور شرافت کی روایات کے حساب سے سراپا دہلوی تھے۔ گڑ گانواں (یا گڑ گائوں) گو کہ ہریانے میں ہے لیکن دہلی سے اتنا متصل ہے کہ اسی کا جزو معلوم ہوتا ہے۔ چودہ پندرہ لاکھ کی آبادی کا یہ الگ شہر اب اس نام سے نقشے پر نہیں ملے گا کیونکہ نام بدلو مہم کے دوران اس کا بھی نیا نام گورو گرام رکھ دیا گیا ہے۔ گرام کے معنے بھی گائوں ہی کے ہیں۔ بعض اخبارات کے دہلی ایڈیشن دھلی کے بجائے گڑ گاواں سے چھپتے ہیں۔ آئی اے رحمن کا اٹھ جانا صحافت سے زیادہ انسانی حقوق کی تحریک کے لئے سانحہ ہے۔ مرحوم بہت بڑے صحافی تھے۔ اتنے بڑے کہ اگر چوٹی کے درجن بھر ناموں کی فہرست بنائی جائے ،تو ان کا نام اس میں لازماً شامل ہو گا لیکن بہت بڑا صحافی ہونا یکے از نوادر نہیں‘ کئی ہوتے ہیں‘ کئی ہوئے ہیں اور کئی آئندہ بھی ہوں گے جبکہ انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنا‘ وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں آسان کام نہیں۔ یہ آگ کا دریا ہے، جہاں قدم قدم موت منڈلاتی اور بے چہرہ سائے تعاقب میں رہتے ہیں۔آئی اے رحمن نے خوف اور دہشت کی فضا میں کسی ستائش اور مسئلے کی پروا کئے بغیر یہ کٹھن کام کرنے کا بیڑہ عاصمہ جہانگیر کے کہنے پر اٹھایا اور دم واپسی تک اس کام سے الٹے پائوں پھرنے کا سوچا تک نہیں۔ آئی اے رحمن انسانی حقوق کے خاموش مجاہد تھے۔ انوکھی بات ہے کہ مزاج اور افتاد طبع کے حساب سے آپ سائنس دان تھے اور وہ بھی فزکس جیسے شعبے کے لیکن پیشہ صحافت اختیار کیا اور اسی میں نام کمایا تاآنکہ انسانی حقوق کمشن میں آئے اور اس کے چیئرمین بنے اور تاریخ انہیں بڑے صحافی کے طور پر کم‘ انسانی حقوق کی اس لازوال جدوجہد کے حوالے سے زیادہ یاد رکھے گی، صوفی منش‘درویش صفت آئی اے رحمن نے آخر دم تک کی۔ یہ مت سمجھا جائے کہ انسانی حقوق کے داعی آپ عاصمہ جہانگیر سے ملنے کے بعد ہوئے۔ بہت عشرے بیتے‘ شاید کسی کو یاد ہو۔1970ء میں مشرقی پاکستان میں ایک قتل عام ہوا تھا۔ آئی اے رحمن کا اخبار’’آزاد‘‘ موجودہ پاکستان کا واحد اخبار تھا (ڈیڑھ درجن سے بھی زیادہ روزناموں میں واحد) جس نے اس قتل عام پر تنقید کی۔ باقی تمام اخبارات میں تنقید تو کجا‘اس سانحے کا ایک سطری ذکر بھی کسی نے نہیں کیا اور بدستور یحییٰ خان کو غازی قرار دے کر قصیدہ خوانی کے مقابلے میں مصروف رہے۔آزاد اس پاداش میں بند ہو گیا۔ پاکستان‘شمالی کوریا یا ایران نہیں ہے لیکن زیادہ پیچھے بھی نہیں ہے۔یہاں انسانی حقوق کا نام لینا بھی خطرے سے خالی نہیں کہ جانے کس گلی میں انسانوں کو اچک لے جانے والوں کے ہاتھوں زندگی کی شام ہو جائے۔ آئی اے رحمن چل بسے۔ خدا ان کی مغفرت اور بخشش کرائے۔ انہیں سیکولر بھی کہا جاتا ہے ۔حالانکہ اسلام کے عمرانی پہلو پر ان کا مطالعہ بہت سے علماء کرام سے بڑھ کر تھا۔ اب وہ نہیں رہے اور ساقی کے لب پر یہ صلا مکرّر ہے کہ کون ہوتا ہے حریف سے مرد افگن عشق۔ لیکن امید کے امکانات زیادہ ہیں‘عاصمہ اور آئی اے رحمن جیسوں کی محنت سے انسانی حقوق کا شعور بڑھا ہے اور آواز اٹھانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بھلے سے ان کی خبر اخبارات میں نہیں چھپتی لیکن درد مندوں کا سینہ گزٹ (اب تو سوشل میڈیا بھی) ان خبروں سے بھرا ہوا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ملک میں بحرانوں کی قطار لگی ہوئی ہے لیکن مثبت رپورٹنگ کی ڈاکٹرائن کے تحت یہ قطاریں دکھانے پر پابندی ہے۔ یہاں تک کہ میڈیا وہ قطاریں بھی نہیں دکھا رہا جو رمضان بازاروں میں لگی ہوئی ہیں۔ روزہ داروں کا آدھا روزہ ان قطاروں میں گزر جاتا ہے یوں کہا جا سکتا ہے کہ آدھا روزہ تو یوں چٹکیوں میں گزر گیا۔ چلیے‘ ایک منفی معاملے سے کچھ تو مثبت برآمد ہوا اور معاملہ صرف قطار کا نہیں‘ اشیاء لینے والوں کی شناخت پریڈ بھی ہوتی ہے‘ شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے پھر انگوٹھا لگوایا جاتا ہے جو سیدھا نادرا کے ریکارڈ میں چلا جاتا ہے تاکہ ایک باراشیاء لینے والا پھر سے نہ آ جائے ۔ یہ معاملہ آپ لکھیں گے تو میڈیا پر نہیں آئے گا لیکن میڈیا پر لانے کی ایک ترکیب ہے۔ سارا معاملہ دردناک اسلوب میں لکھنے اور آخر میں ایک سطر کا اضافہ کر دیجیے کہ اس سب کا ذمہ دار نواز شریف کا دور حکومت ہے۔ بخدا ساری منفی رپورٹنگ اس ایک سطر سے مثبت رپورٹنگ میں بدل جائے گی۔ ٭٭٭٭٭ عالمی ادارے ہینلے پاسپورٹ انڈکس نے اطلاع دی ہے کہ worstپاسپورٹس کی فہرست میں پاکستانی پاسپورٹ چوتھے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس لفظ worst کا ترجمہ مجھے نہیں آتا۔ قیاس ہے کہ بہترین کے معنوں میں ہو گا۔ جو تین ممالک پاکستان سے اوپر ہیں ان میں شام‘ افغانستان اور عراق شامل ہیں۔ یعنی خان صاحب نے ایک اور وعدہ پورا کر دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں آئوں گا تو پوری دنیا میں ہمارے پاکستان کی عزت ہو گی۔ یعنی پاسپورٹ اوپر جائے گا ۔ کافی اوپر تو چلا گیا لیکن تین ملک پھر بھی حائل ہیں۔ سرفہرست آنے میں بس کچھ اور ہی مہلت چاہیے جو خان صاحب کو ملنی ہی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ نے معاشی بحران کا حل پیش کر دیا ہے۔ فرمایا ہے کہ گروتھ ریٹ 7فیصد پر آ جائے تو تمام مسئلے حل ہو جائیں گے۔ فی الحال تو منفی کی طرف دوڑ جاری ہے۔ ویسے شعر یاد آیا: میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا کسی سے سن لیا ہو گا کہ دنیا چار دن کی ہے