معزز قارئین!۔ خبریں تو بہت سی ہیں لیکن، بعض اوقات مجھے ’’کوزے میں دریا بندکرنے ‘‘ میں مشکل پیش آتی ہے ۔ اِس لئے آج مَیں آپ کی خدمت میں صِرف دو خبروں پر ہی تبصرہ کر سکوں گا۔ ایک خبر تو بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی اور بھارت ہی کے سابق چیف جسٹس مسٹر مرکنڈے کاٹجو(Markandey Katju)میں گائے کا دودھ پینے اور اُس کا گوشت کھانے پر پھر ایک اختلاف رائے نظر آیا ہے اور دوسری خبر یہ کہ ’’ امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) نے دھمکی دِی ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان اور اُن کے اتحادیوں کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے اُن کی جماعت ’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ ( M-M-A) اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر اگلے ماہ یعنی۔ "March" میں "Million March" کرے گی اور اِسلام آباد میں دھرنا (Sit-In) دے گی۔ جمعیت عُلماء اسلام ( ف) کے ایک لیڈر امجد خان صاحب نے ملین مارچ کے بجائے "Long March" کی دھمکی دِی ہے۔ جہاں تک گائے کا تعلق ہے ، ہندو قوم اُسے ماتا ( ماں) سمجھتی ہے اور اُس کا دودھ پینے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ ہندی (اردو) میں ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ گائے کا دودھ ، سو ، مائے کا دودھ‘‘( یعنی۔ گائے کا دودھ ماں کے دودھ کی طرح ہوتا ہے)۔ گائے (Cow) کو سنسکرت اور ہندی میں ’’گائو ‘‘ کہتے ہیں لیکن، فارسی میں صِرف نَر ( مذکر ) بَیل کو گائوؔ کہتے ہیں۔ وِشنو دیوتا کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کا ایک صفاتی نام ہے ’’ گوپال‘‘ گئو پالؔ (یعنی۔ گائیں پالنے والا) ہندو دیو مالا کے مطابق شری کرشن جی ورندرا بَن ؔ میں گایوں کی رکشا ؔ ( حفاظت ) کرتے تھے ۔ اُن کا دودھ بھی پیتے تھے اور وہاں موجود گایوں اور گوپیوں ( گوالنوں)کے ساتھ ناچتے اور اُنہیں اپنی بانسری سے لبھاتے بھی تھے ۔ معززقارئین!۔ مَیں حیران ہُوں کہ ’’ انگریزوں سے آزادی کے علمبردار ، ہندوئوں کی متعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو شری موہن داس کرم چند گاندھی ؔ گائے کے بجائے بکری (Goat) کا دودھ پیتے تھے۔ 1930ء میں جب، گاندھی جی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن گئے تووہ، اپنے ساتھ اپنی پالتو بکری بھی لے گئے تھے۔ انگریزوں سے آزادی کے حصول کے دَوران ہندوئوں اور مسلمانوں میں کئی بار جھگڑا ہُوا، اِس لئے کہ ’’ ہندو گائے کو ماتاؔ ماں سمجھتے تھے اور مسلمان اُس کا گوشت کھاتے تھے ‘‘ ۔اُن دِنوں لاہور میں یہ ہُوا کہ ’’ جب ہندوئوں نے اپنی گائو ماتا کے کئی جلوس نکالے تو، مسلمانوں نے ہَٹے کٹے بَیل ( سانڈ ) کو خوبصورت کپڑے پہنا کر اُس کا بھی جلوس نکال دِیا اور اُس کے گلے کے "Banner" پر ’’ سنڈا پِتا‘‘ لکھ دِیا۔ ( پنجابی میں بَیل کو سنڈا کہتے ہیں ) ۔ 13 فروری 2019ء کو خبر شائع ہُوئی کہ ’’ وزیراعظم مودی نے نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ گائے بھارت کی روایت اور ثقافت کا ایک حصہ ہے اور گائے کے دُودھ کا قرض ہم کبھی بھی ادا نہیں کرسکتے‘‘ اور نئی دہلی ہی میں مسٹر مرکنڈے ؔکاٹجو نے ایک پروگرا م میں شرکت کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ کوئی گائے کسی کی ماتا (ماں) نہیں ہوسکتی۔ ذرا سوچئے تو سہی کہ کوئی جانور کسی اِنسان کی ماتا کیسے ہوسکتی ہے؟کیا آپ کے پاس دماغ ہے یا اُس میں گوبر بھرا ہے ‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ پوری دُنیا میں لوگ "Beef'( گائے یا بَیل کا گوشت) کھاتے ہیں اور مَیں نے خود بھی صوبہ "Kerala"میں "Beef"کھایا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ بھارت کے مختلف صوبوں میں متعصب ہندوئوں نے ، گائے کا گوشت کھانے والے مسلمانوں کو شہید کِیا ، کئی بار مسلمانوں پر الزام لگا کر اُن پر حملے کئے گئے یہی وجہ ہے کہ ’’ بھارت میں ’’داراُلعلوم دیو بند ‘‘ کی طرف سے مسلمانوں کو مشورہ دِیا گیا ہے کہ ’’وہ ہندوئوں سے اپنی جان بچانے کے لئے گائے کا گوشت کھانے سے اجتناب کریں‘‘ لیکن، عجیب بات ہے کہ تحریک پاکستان کی مخالف جمعیت عُلمائے ہند کی باقیات (کانگریسی مولویوں میں سے ایک ) مہتمم داراُلعلوم دیو بند مولوی مرغوب اُلحسن نے( جو اِس وقت آنجہانی ہو چکے ہیں) ستمبر2005ء میں بمبئی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے قائداعظم محمد علی جناح ؒکے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ محمد علی جناح نماز نہیں پڑھتے تھے اور شراب بھی پیتے تھے ۔ اِس لئے مَیں اُنہیں مسلمان نہیں سمجھتا ‘‘۔ حیرت ہے کہ ’’ اُن دِنوں جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے اور وزیراعظم شوکت عزیز ۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی ۔اور ملک میں مسلم لیگ نام کی کئی سیاسی جماعتیں بھی تھیں لیکن، کسی نے بھی قائداعظمؒ کے خلاف بد زبانی کرنے والے مولوی مرغوب اُلحسن کے بارے میں زبان نہیں کھولی۔ مَیں نے اپنے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور میں اُس کی خوب ٹھکائی کئی۔ اُس کے خلاف ایک نظم بھی شائع کی ، پھر جنابِ مجید نظامی نے ’’ نوائے وقت‘ ‘ میں اُس کی خوب خبر لی‘‘۔ بہرحال بھارت میں ’’گئو رکشا‘‘ (گائے کی حفاظت) کے نام پر ، مسلمانوں کی جان کو ہروقت خطرہ ہے ، اِس لئے مَیں تو چیف جسٹس( ر) مرکنڈے کاٹجو کو سلام پیش کرتا ہُوں کہ اُنہوں نے ’’ گائے یا بَیل کا گوشت کھا کر ، گئو ماتا ؔکے نام پر مسلمان دشمن ہندوئوں کو خوب چیلنج کردِیا ہے ۔ "Million March" معزز قارئین!۔ امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے "March" میں "Million March" اور پھر اسلام آباد میں دھرنا دینے (Sit-In) کی دھمکی سے مجھے جماعت ِ اسلامی کے (مرحوم) امیر قاضی حسین احمد یاد آگئے ہیں۔ قاضی صاحب نے جغرافیہ میں "M.A"کِیا تھا اُنہوں نے یقینا اکتوبر 1995ء میں اپنے مطالبات منوانے کے لئے واشنگٹن میں "African-Americans" کے "Million March" کے بارے میں پڑھا ہوگا؟۔ علاوہ ازیں قاضی صاحب کو یقینا انگریزوں کے خلاف "Quit India Movement" میں گاندھی جی کی قیادت میں دھرنا ( Sit-In) کے بارے میں بھی معلومات ہوں گی ۔ریکارڈ ؔشاہد ہے کہ ’’ قاضی صاحب نے جب، بھی کسی حکومت کے خلاف ملین مارؔچ کِیا اور دھرنا دِیا تو، ہزاروں لوگ اُن کے ساتھ تھے ؟۔ یاد رہے کہ ’’ اگست 1997ء میں ’’ جنگ میگزین‘‘ کو انٹرویو دیتے ہُوئے قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ ’’ میرے والد صاحب ’’جمعیت عُلمائے ہند‘‘ میں تھے اور اُنہوں نے میرا نام حسین احمد ؔ ۔ کانگریس کے سابق صدر حسین احمد ؔمدنی کے نام پر رکھا تھا اور حسین احمد مدنی صاحب نے (برکت کے لئے ) اپنا لعابِ دہن میرے مُنہ میں ڈالا تھا‘‘۔ 6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب ( سرکاری ملازم) مولوی عبداُلعزیز صاحب نے ’’ امیر اُلمومنین ‘‘ کا لقب اختیار کر کے اور اپنے چھوٹے بھائی غازی عبداُلرشید کو ’’نائب امیر اُلمومنین) مقرر کر کے ملک بھر ’’ شریعت ‘‘ کا نفاذ اور لال مسجد میں ’’ شرعی عدالت‘‘ قائم کر کے صدر جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ق) کی وفاقی حکومت کو وارننگ دِی تھی کہ ’’ اگر اُس نے نفاذِ شریعت میں رکاوٹ ڈالنے اور لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کے خلاف کسی کارروائی کی کوشش کی تو، پورے پاکستان میں فدائی حملے ہوں گے ‘‘۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف "Operation Sunrise"۔ کرنا پڑا ، جس کے نتیجے میں 103 لوگ مارے گئے۔ پاک فوج کے کئی افسران اور جوان بھی شہید ہُوئے۔ اُن دِنوں متحدہ ؔمجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد اور سیکرٹری جنرل فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کی جمعیت کے عبداُلغفور حیدری نے 12 جولائی کو اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید قرار نہیں دِیا جاسکتا‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ مجھے نہیں معلوم کہ فضل اُلرحمن صاحب کی قیادت میں مارچ میں "Million March" اور ’’ جے۔ یو۔ آئی ‘‘ کے ایک لیڈر کے بقول جب، وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے "Long March" ہوگا تو،اُس کا کیا نتیجہ ہوگا؟۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں تو، کانگریسی مولویت کو شکست فاش ہو چکی ہے؟۔