حالیہ بارشوں اور آندھی کی وجہ سے گندم اور آم کی فصل کو پہنچنے والے نقصان نے کاشت کاروں کی مالی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ کسانوں کی جانب سے حکومت سے مدد کی اپیل پر پنجاب کے تمام کمشنرز سے مجموعی نقصان کے تخمینے اور دوسری تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں۔ کے پی کے اور سندھ کے علاقوں میں نقصان کا حجم زیادہ بڑا نہیں تاہم وہاں بھی حکومت نے فصلوں اور باغات کو پہنچنے والے نقصان کے اعداد و شمار اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے اپنے افسران کو تنبیہ کی ہے کہ نقصان کی رپورٹ پر اگر کسی کاشت کار نے اعتراض کیا تو اس کا ذمہ دار وہ فیلڈ سٹاف ہو گا جس نے تخمینہ لگایا۔ دوسری طرف وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے وضاحت جاری کی ہے کہ بارشوں اور آندھی سے گندم کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کے باوجود ملک میںغذائی بحران پیدا ہونے کے امکانات نہیں۔ حالیہ برس ساز گار موسمی حالات اور بارشوں کی وجہ سے گندم‘ مکئی‘ چنے اور آم کی فصل معمول سے زیادہ برداشت کی حامل دکھائی دے رہی تھی۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی بھارت نے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کا پانی روکا لیکن وقفے وقفے سے ہونے والی بارشوں نے اس محتاجی کا احساس نہ ہونے دیا۔ ابتدائی رپورٹس میں حالیہ بارشوں سے گندم کی بیس فیصد فصل متاثر ہونے کا اندازہ کیا جا رہا ہے۔ جس سے اس برس بمپر فصل ہونے کے امکانات کم دکھائی دینے لگے ہیں۔ پاکستان کی آب و ہوا میں اپریل کا وسط خشک اور گرم ہوتا ہے۔ گرم ہوا گندم کے کھیتوں سے ٹکراتی ہے تو سبزبالیوں کے غلاف میں چھپے دانے خشک ہو کر جھنجھنانے لگتے ہیں اور پودے کٹائی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں میں گندم کی کٹائی شروع ہو چکی تھی۔ وزارت فوڈ سکیورٹی کی وضاحت پر یقین کیا جا سکتا ہے تاہم اس موسمی تبدیلی نے کسان کو جو نقصان پہنچایا اس سے بچائو کی تدابیر ضروری ہیں۔ جنوبی ایشیا موسمی تبدیلیوں کی زدمیں آ چکا ہے۔ گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ ہر سال سیلاب آتے ہیں اور فصلیں موسمی آفات کی نذر ہو رہی ہیں۔ پاکستان ایک بڑی آبادی کا مالک ہے۔ اس کی شمالی زمینیں بنجر اور پانچ ہزار میٹر تک سطح سمندر سے بلند ہیں۔ دوسری طرف جنوبی رقبے ساحلی پٹیوں سے ملے ہوتے ہیں۔ ملک کی اکثریتی آبادی کسی نہ کسی صورت میں زراعت سے وابستہ ہے۔ پوری دنیا میں زراعت کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سے ہم آہنگ کرنے کے لئے دو طرح سے کام کیا جا رہاہے۔ایسے بیج تیار کئے جاتے ہیں جو موسمی تبدیلی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وسطی پنجاب کی زرخیز زمینوں پر گندم کی فصل ہر سال بارشوں سے متاثر ہونے لگے تو ان علاقوں میں گندم لگانے کی کوشش کی جائے جہاں اس موسم میں بارشوں کا امکان کم ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس سطح پر جا کر کوئی ادارہ فیصلہ نہیں کر رہا۔ پاکستان میں دریائی پانی کا ذخیرہ اور استعمال پہلے ہی ایک غیر یقینی سہولت کا درجہ اختیار کر چکا ہے موسمی تغیر نے کاشت کاروں کو کلی طور پر قدرت کے سامنے بے بس کر دیا ہے۔ موسمیاتی تغیر ایک بین الاقوامی مسئلہ بن کر ابھر رہاہے تاہم اس کے اثرات ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں زیادہ شدت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک موسمیاتی تغیر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور قابلیت سے محروم ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی اکثریت کا انحصار زراعت پر ہے اور یہ زراعت براہ راست فطرت کے رحم و کرم پر ہے۔ بارشی سلسلوں میں تبدیلی‘ خشک سالی اور درجہ حرارت وغیرہ زمین کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ براعظم ایشیا اور حتی کہ افریقہ کے کئی ممالک میں بھی ایسی تبدیلیوں کے اثرات کو پیش نظر رکھ کرحکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بارشوں کا سلسلہ بڑھنے کا امکان ہے۔ ہمالیہ کے گلیشئر 75فیصد تک پگھل سکتے ہیں اس صورت میں 2035ء تک یہ گلیشئر نابود ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ بارشوں نے گندم کی فصل کو اس حد تک نقصان نہیں پہنچایا کہ قومی ضروریات کے لئے پاکستان کو گندم درآمد کرنا پڑے تاہم اس سے کسانوں کی آمدنی میں کمی ہوئی۔ اللہ نہ کرے بارشوں کا سلسلہ اگلے چند دنوں میں دوبارہ شروع ہوا تو صورت حال ناقابل برداشت نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ موسمیاتی تغیر ہماری زرعی پیداوار کو متاثر کرنے لگا ہے۔ کھاد کے استعمال کے ساتھ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ سے فی ایکڑ پیداواربڑھے گی جو مزید غذائی قلت کا باعث ہوگی۔ اس سے ان ممالک میں فوڈ سکیورٹی کا معاملہ اس قدر اطمینان بخش نہیں رہے گا جیسا اس وقت دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے ہاں زرعی پالیسی بنانے والوں اور کاشتکاروں کے درمیان ہمیشہ ایک کمزور تعلق رہا ہے جب تک کسان فیصلہ سازی میں شریک نہ ہوں موثر پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکتی۔ فصلوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا ڈیٹا ریونیو اور ماحولیات کے محکمہ جات فراہم کرسکتے ہیں مگر ان تبدیلیوں کے اثرات کا علم صرف کاشتکار ہی سے مل سکتا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2050ء تک جنوبی ایشیا میں گندم کی فصل کی پیداوار 50فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں غذائی قلت کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں وزارت فوڈ سکیورٹی سے اپنی کارکردگی بہتر اور موثر بنانے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں گندم چاول اور مکئی اہم فصلیں ہیں۔ گنا نقد آور فصل ہے۔ فوڈ سکیورٹی پالیسی کو ماحولیاتی تغیرات پیش نظر رکھ کر تشکیل دیا جائے تو مستقبل میں قدرتی آفات اور دشمن ملک کی ریشہ دوانیوں سے فصلوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔