وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے 18ستمبر 2011ء کو برطانوی اخبار دی گارجین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا’’ہر وہ ملک جس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ اس نے آئی ایم ایف یا عالمی بنک سے قرضوں کا پروگرام لیا اس نے غریب کو مزید غریب اور امیر کو مزید امیر ہی کیا ہے۔اسلام آباد دھرنے میں بھی عمران خان عوام کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کے نقصانات گنواتے رہے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی حکومت نے نا صرف آئی ایم ایف سے قرض لیا بلکہ تین سال میں ملک پر قرضوں میں 60 فیصد اضافہ بھی ہوا ۔ آج اپوزیشن عمران خان کو احمد فراز کا یہ شعر یاد دلا رہی ہے: عشق الزام لگاتا تھا ہوس پر کیا کیا یہ منافق بھی ترے وصل کا بھوکا نکلا اپوزیشن کا الزام اور تنقید اپنی جگہ مگر سوال یہ بنتا ہے کہ وہ عمران خان جو قرض کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیتے تھے، وہ کشکول اٹھا کر ملک ملک قرضوں کی بھیک مانگنے پر کیوں مجبور ہوئے۔اس سوال کا جواب عمران خان نے ہی دیا ہے کہ ان کی حکومت نے 20ارب ڈالر ماضی کی حکومتوں کا قرض اور سود ادا کیا ہے۔وزیر اعظم کے اس دعوے کی تصدیق سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے جن کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے3 سالو ں میں 27ارب ڈالر نیا قرض تو لیا مگر ساتھ ہی 39ارب 59کروڑ ڈالر قرض اور سود کی ادائیگی پر خرچ کیے ہیں۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بیرون ملک قرضوں کی واپسی کے باوجود 31دسمبر 2020ء تک ملک کے ذمہ قرضے میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے قرضوں اور سود کی ادائیگی صرف تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں کر رہی بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی اس بوجھ کو برداشت کرتی رہی ہیں۔ سٹیٹ بنک کے ریکارڈ کے مطابق ہماری حکومتیں قرض واپس کرنے کے لئے مزید قرض لیتی رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے 5سال میں 34ارب ڈالر کا قرض لیا جبکہ 33ارب 30کروڑ ڈالر کا قرض اور سود ادا کیا۔ اس لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی اس لئے بہتر رہی کہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سا لہ دور میں 15ارب کا قرض لیا جبکہ 24 ارب 30کروڑ ڈالر قرض اور سود کی مد میں ادا بھی کئے۔نئے قرض اور واپسی کے لحاظ سے تینوں حکومتوں کا موازنہ کیا جائے تو تحریک انصاف نے 12ارب 59کروڑ ڈالر قرضوں کا بوجھ کم کیا اس طرح پیپلز پارٹی نے 9ارب ڈالر قرض سے زائد ادائیگی کی جبکہ مسلم لیگ ن نے اپنے اقتدار میں قرضوں کی ادائیگی سے 70کروڑ ڈالر زائد قرض لیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں صرف پاکستان ہی واحد ملک ہے جو قرضوں پر چل رہا ہے؟۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا صرف پاکستان ہی ہے جس کے قرضے اس کے جی ڈی پی کے 83فیصد تک پہنچ چکے ہیں اس کا جواب ورلڈ بنک کی فروری 2015ء کی رپورٹ سے ملتا ہے جس کے مطابق دنیا میں نو ممالک ایسے تھے جن کے ذمہ قرض ان کے جی ڈی پی سے تین گنا زیادہ ہو چکا تھا جن میں جاپان 400فیصد کے ساتھ پہلے جبکہ انڈونیشیا 88فیصد کے ساتھ 40ویں نمبر پر تھا۔ اس فہرست میں امریکہ کا 233فیصدکیساتھ 16واں اور بھارت کا 120فیصد کے ساتھ 35واں نمبر تھا ، فہرست میں جاپان اور سنگا پور کے علاوہ پہلے 20 ممالک میں یورپ کے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیںَ اگر قرضوں کے بوجھ کی بات کی جائے تو قرضوں کے حوالے سے بھی پہلے نمبر پر یورپی یونین ہے۔ فہرست کے مطابق امریکہ دنیا کا چھٹا مقروض ترین ملک ہے مگر اس کے باوجود ان ممالک کی معیشت ترقی کر رہی ہے جبکہ پاکستان کو ہمیشہ دیوالیہ ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے تو اس کی وجہ غیر ملکی قرضے نہیں ان قرضوں کا استعمال ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے جو قرض لیا،ِ اول تو وہ لوٹ مار کی نذرہو گیا اگر ملک میں استعمال ہوا بھی تو غیر پیداواری کاموں میں استعمال ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت ہو یا پھر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی ہماری حکومتیں اقتصادی ترقی کے بجائے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لے کر ملک کو مزید مقروض کر رہی ہیں۔ عالمی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو قرض نہ لیتا ہو مگر یہ ملک قرض کو ترقیاتی اور پیداواری کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں جس سے ملک کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک اس اضافی آمدن سے قرض واپس بھی کرتے ہیں ۔ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ غیر ملکی قرضے ہوں گے مگر اصل مسئلہ حکومتوں کی ترجیحات کا ہے کہ حکومتیں قرض کو کس طرح استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی میں حکمران ملکی قرضوں کو اپنی دولت میں اضافے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں قرض لیا ،،ملکی دولت لوٹ کر دوسرے ممالک میں منتقل کی اور چلتے بنے۔ مسلم لیگ ن کے دور میں حکمران اشرافیہ کی دبئی رئیل اسٹیٹ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری اس امر کا بین ثبوت ہے۔عمران جہانگیر نے کہا ہے نا ، یہ شہر طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے پہلو میں کھڑا شخص مسیحا کہ بلا ہے غیر ملکی قرض ایسا طلسم ہے کہ مسیحا بھی ہے اور بلا بھی ۔اس کا انحصار قرض کے استعمال پر ہے اور یہ فیصلہ حکمرانوں نے کرنا ہوتا ہے کہ اس طلسم کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے انکار نہیںکہ مسلم لیگ ن نے قرض لیا اور ملکی انفراسٹرکچر میں بھی استعمال کیا مگر مسلم لیگ ن نے قرض جن سکیموں میں استعمال کیا ان سے ملک کی آمدن میں اضافے کے بجائے ملک مزید مقروض ہوتا گیا ۔مسلم لیگ ن نے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے جو کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگائے وہ نہ صرف دنیا بھر میں متروک ہو چکے ہبں بلکہ درآمدی کوئلہ پاکستان کے زرمبادلہ پر مزید بوجھ بھی بن رہا ہے۔قرض سے بنائی جانے والی میٹرو اور اورنج ٹرین کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی اس کا ثبوت ہے۔ بقول غا لب قرض کی پیتے تھے مے ،لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی، ایک دن