اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے ٹیکس اصلاحات کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا ہے۔ اصلاحاتی لائحہ عمل کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ختم کر کے اس کی جگہ نیشنل ٹیکس اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اصلاحاتی عمل میں ٹیکسز کو سادہ اور شفاف بنانے کے لیے بعض تبدیلیوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔ کارپوریٹ ٹیکس 20فیصد اور سیلز ٹیکس میں کمی کر کے اسے 8فیصد کیا جائے گا۔ کمپنیوں کے علاوہ آمدن کے تمام ذرائع پر 10فیصد فلیٹ ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر قسم کی آئٹمز پر دو فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ موبائل فون‘ بجلی اور بنک ٹرانزکشن پر مقررہ حد عبور کرنے پر ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ ہدایت کر دی گئی ہے کہ موبائل فون بل کی مقررہ حد 36ہزار روپے سالانہ ہو گی۔ بجلی کا کمرشل بل اگر 36ہزار روپے سالانہ سے بڑھے تو اس پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہو گا جبکہ گھریلو بل سالانہ 60ہزار روپے سے بڑھنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی ذیل میں آ جائے گا۔ حکومت کی طرف سے ٹیکس بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملک میں داخل اور خارج ہونے والے کنٹینر کی سکیننگ کی جائے گی اور انڈر انوائسنگ‘ کسٹم ڈیوٹی کو نقصان پہنچانے والے محرکات کا تدارک کیا جائے گا، سمگلنگ کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے گا اور ٹیکس ریٹرن سادہ اور آسان بنائی جائے گی۔ پاکستان کی مالیاتی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ سرکاری مشینری کی ٹیکس جمع کرنے کی ناقابل اعتبار صلاحیت ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس تمام مسئلے کا محور رہا ہے۔ صوبائی اور وفاق کی سطح پر درجنوں ادارے ہیں جو پیداوار‘تجارت‘ درآمد برآمد‘ خدمات ‘ خریدوفروخت، تنخواہوں اور املاک پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ ہر محکمے کی ٹیکس مشینری نے سرکاری ضابطوں کے متوازی اپنے اصول اور ضابطے ترتیب دے رکھے ہیں۔ رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ ہر سال پاکستان میں 5000ارب روپے بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ٹیکس سے متعلقہ محکموں کے اہلکار شاہانہ طرز زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی رہائش ‘ گاڑیاں اور رہن سہن ان کی آمدن سے کئی گنا زیادہ کا پتہ دیتے ہیں۔ ہر نئی حکومت نے ابتدا میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر حکومتوں کی اس رائے کو پذیرائی ملی۔ توقع کی جاتی رہی کہ ٹیکس نیٹ کشادہ کر کے ان چند لاکھ تنخواہ داروں کی گردن آزاد کرائی جائے گی جنہوں نے پوری ریاست کا خرچ اٹھانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ہوئی ہے مگر ہر بار حکومتوں نے عوام کو مایوس کیا۔ ریاست مالیاتی اعتبار سے کمزور ہونے لگی اور افراد کی دولت اتنی بڑھی کہ بیرون ملک بیش قیمت جائیدادیں اور کاروبار کھڑے کر لیے۔ ٹیکس اکٹھا کرنا ہمیشہ سے پاکستان میں ایک مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے قومی معیشت کئی طرح کی پیچیدگیوں کی شکار ہو چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس بیس کو وسیع کیا جائے۔ موجودہ ٹیکس دہندگان کی شرح خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ شہری اپنی ریاست اور حکومت پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ بداعتمادی ایک دوسری شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں امیر ہو یا غریب اپنی استطاعت کے مطابق خیراتی کاموں میں تعاون کرتا ہے۔ ادارے درست طریقے سے کام کریں‘ ٹیکس نظام شفاف ہو اور ٹیکس انتظامیہ بدعنوانی سے پاک ہو تو ریاستی خزانہ بھرنا مشکل نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں ٹیکسوں کی بھر مار ہے۔ ملک میں چودہ کروڑ موبائل فون استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ چودہ کروڑ فون استعمال کرنے والے افراد اپنے فون بل کا 20فیصد سے زائد ٹیکس کی شکل میں حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ ملک میں موٹرسائیکل‘ کاروں اور ویگنوں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ تمام گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل استعمال ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ ایندھن پر بھی بھاری ٹیکس عائد ہیں۔ بجلی کے بل پر کئی نوع کے ٹیکسز لوگوں کی پریشانی بڑھاتے ہیں۔ ہر آدمی ایک دن میں ایسے کئی طرح کے فرائض انجام دیتا ہے جن پر الگ الگ ٹیکس عائد ہیں۔ اتنے سارے ٹیکس دینے کے بعد بھی جب عوام کو ایف بی آر کے بدعنوان یا یا غیر تربیت یافتہ عملے کے ہاتھوں اذیت اٹھانا پڑتی ہے تو وہ ٹیکس نہ دینے کی راہ تلاش کرنے لگتے ہیں‘ ان کی معاونت کے لیے سرکاری عملہ ہی مددگار بن جاتا ہے۔ سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں 5کروڑ 75لاکھ افراد ملازمت پیشہ ہیں۔ ان کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام آئی ہے کہ ملک میں ایسی 54ہزار کمپنیاں ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتیں یا ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرا رہیں۔ نئی حکومت کے اصلاحاتی پروگرام میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ شہریوں کو ان کی آمدن کے حساب سے مخصوص ایک ہی ٹیکس کی ادائیگی خوشگوار ثابت ہو سکتی ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا بہت زیادہ استعمال ٹیکس تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فعال اور تیز رفتار ٹیکس ٹربیونلز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا حکومت ٹیکس اصلاحات متعارف کراتے ہوئے ٹیکس ٹربیونلز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ بھی کرے تو نئے تنازعات سے احسن طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔ ٹیکس اصلاحات کی جو تفصیل ہمیں دستیاب ہوئی ہے اس کے مطابق سالانہ 25ہزار کی بینک ٹرانزکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگے گا۔ پاکستان میں غریب سے غریب آدمی بھی اتنی رقم ایک دو ماہ میں بینکوں کے ذریعے منتقل کر لیتا ہے۔ لہٰذا یہ شرح نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے۔ پاکستان میں سالانہ 600سے 800ارب روپیہ سمگلنگ کی وجہ سے ٹیکس میں شامل نہیں ہو پاتا۔ لگ بھگ 700ارب روپیہ انڈر انوائسنگ کی وجہ سے سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہو رہا۔ ایک ٹیکس متعارف کرانے کے لیے شرح آمدن کا فارمولا معقول دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ بہت سے لوگ ٹیکس سے متعلقہ دستاویزات پیچیدہ اور گنجلک ہونے کے باعث ٹیکس نہیں دیتے۔ ٹیکس دستاویزات آسان اور سادہ بنانے سے ٹیکس دہندگان سہولت محسوس کریں گے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو سکتی ہے جس نے اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر پر سنگین نوعیت کا دبائو بڑھا رکھا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ٹیکس اصلاحات کے لیے اقدامات کرتے ہوئے نظام کے استحکام‘ نتیجہ خیز اور عوام کے اعتماد کو پیش نظر رکھے گی۔ گزشتہ حکومت نے پانچ سال میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس کی وجہ بھی ن لیگی قیادت کے آف شور اثاثوں کا معاملہ تھا۔ حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں عام آدمی کا اعتبار قائم ہو گیا تو پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔