لاہور میں میرے ہئیر ڈریسر عثمان صاحب ایک چھوٹی سی دکان کے مالک ہیں۔ بال سنوارنے کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا کام بھی کرتے ہیں۔ بال بناتے ہوئے مجھ سے سماجی و سیاسی مسائل پرگفتگو کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ پہلے اچانک پوچھنے لگے ’میرے پاس دس لاکھ روپے ہیں۔ میں ان کے ڈالر خرید لوں؟ آجکل ڈالر بہت اوپر جارہا ہے۔‘ میں ذرا چونکا کہ انکے پاس سرمایہ کاری کے لئے اتنی رقم موجود ہے جو میرے پاس بھی نہیں حالانکہ وہ سال میں ایک روپیہ بھی انکم ٹیکس نہیں دیتے جبکہ میں گزشتہ بیس برسوں سے باقاعدہ انکم ٹیکس ادا کررہا ہوں۔ ایک دن مجھے بتانے لگے اُن کے گھر کے ہر کمرہ میں سپلٹ ائیرکنڈیشنر لگا ہوا ہے۔ ان کے پاس ایک کار بھی ہے۔ مطلب کہ زندگی آسائش سے گزر رہی ہے۔ جب بجٹ آیا تو بہت غصہ میں تھے کہ حکومت نے ہئیر ڈریسرز‘ بیوٹی سیلون پر ٹیکس لگا دیا ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ایک شخص کی معقول آمدن ہے لیکن سال میں ریاست کو ایک بار دس پندرہ ہزار روپے فکسڈ ٹیکس دینے پر راضی نہیں۔ پاکستان میں کم سے کم تیس لاکھ ایسے لوگ ہیں جن کا تعلق خدمات یا تجارت کے شعبوں سے ہے‘ اُن کی سالانہ آمدن انکم ٹیکس دینے کے زُمرے میں آتی ہے لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر حکومت وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو احتجاج کرتے ہیں ہڑتالیں کرتے ہیں‘ حکومت کے ظالم ہونے کی دہائی دیتے ہیں۔ شاندار زندگی گزارتے ہیں لیکن چند ہزار سالانہ ٹیکس دینے کی بات ہو تو بہت مظلوم بن جاتے ہیں‘ بہانے ترشنے لگتے ہیں۔ ایک بہانہ ہے کہ انکم ٹیکس فارم بہت پیچیدہ ہے۔ ساری دنیا میں لوگ وکیلوں کی مدد سے ٹیکس ریٹرن فائل کراتے ہیں۔ ہمارے لوگ ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ اصل معاملہ روّیہ اور عادت کا ہے۔ البتہ حکومت بھی مہربانی کرے۔ انگریزی زبان کی غلامی سے نجات پائے۔ ٹیکس فارم انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاری کرے تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ ایک اندھیر بڑے بڑے زمینداروں نے مچایا ہوا ہے۔ تمام اسمبلیوں میں اُن کی اکثریت ہے۔ انہوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں کہ کم سے کم ٹیکس دینا پڑے۔ آئین کی رُو سے زمینداروں پر وفاقی حکومت ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ اس لئے انہیں دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد کی طرح انکم ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ صوبائی حکومتیں ان سے برائے نام ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ البتہ ریاست سے مراعات لینے میں زمیندار‘ وڈیرے سب سے آگے ہوتے۔ بیجوں اور کھادوں کی رعایتی قیمت جس پر ہر سال قومی خزانہ سے اربوں روپے لُٹائے جاتے ہیں۔ فصلوں کی کاشت‘ ٹریکٹر وغیرہ خریدنے کیلیے کم شرح منافع پر قرضے۔ جو نہری پانی استعمال کرتے ہیںوہ تقریبا مفت ہے کیونکہ آبیانہ اتنا کم ہے جس سے نہری نظام چلایا نہیں جاسکتا۔ یہ سب مالی بوجھ پُورا معاشرہ اٹھا رہا ہے۔ زمیندار عیش کررہے ہیں۔اس انتہائی غیر منصفانہ نظام کو تبدیل کیے بغیر ٹیکس وصولی بہتر نہیں بنائی جاسکتی۔ ہمیں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو پچیس ایکڑ نہری اور پچاس ایکڑ بارانی زرعی زمین رکھنے والوں سے دوسرے شہریوں کی طرح انکم ٹیکس وصول کرسکے۔ موجودہ آئین وڈیروں‘ جاگیرداروں کے مفادات کا نگہبان ہے۔ اسے بدلنا پڑے گا۔ ہر شعبہ زندگی میں دولت مند افراد ریاست کو چُونا لگا رہے ہیں جبکہ محنت کش‘ مزدور اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ پستے چلے جارہے ہیں۔ میرا ایک محلہ دار لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں ایک نجی تجارتی کمپنی میں اکائونٹنٹ ہے۔ یہ کمپنی سینے پرونے کے دھاگہ کی نلکیاں تھوک میں بیچتی ہے۔ پورے پاکستان سے گاہک آتے ہیں۔ اکائونٹنٹ بتاتا ہے کہ اوسطاٌ روزانہ دس لاکھ روپے کی فروخت ہے۔ فروخت شدہ مال پر سترہ فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے لیکن کمپنی ٹیکس حکام کو صرفٖ چالیس فیصد یعنی چار لاکھ روزانہ کی سیل ظاہر کرتی ہے۔ یعنی گاہکوں سے پورے دس لاکھ کا سیلز ٹیکس لیکر حکومت کو چار لاکھ کا سترہ فیصد جمع کرایا جاتا ہے‘ باقی کمپنی مالک کی جیب میں جاتا ہے۔ انکم ٹیکس کے چوری اسکے سوا ہے۔ یہی کام زیادہ تر ریسٹورنٹ مالکان‘ تاجر‘ اور بڑے بڑے کاروباری ادارے کررہے ہیں۔ وہ گاہکوں سے حکومت کو دینے کیلیے جتنا سیلز ٹیکس‘ ودہولڈنگ پیشگی انکم ٹیکس وصول کرتے ہیں اس کا نصف سے بھی کم قومی خزانہ میں جمع کراتے ہیں۔ اسطرح چھ سات سو ارب روپے سالانہ کی لیکج ہے۔ حکومت اسے روکنے کیلیے کوئی طریق کار وضع نہیں کرتی کیونکہ اس دھندہ میں بااثر کمپنیاں اور مالیاتی ادارے ملوث ہیں۔ ان کا حکومت میں گہرا اثر و رسوخ ہے۔ ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم موجود ہے لیکن موثر نہیں۔ لاہور کے بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورز اسمگلنگ کے مال سے بھرے ہوئے ہیں۔درآمدات میں مس ڈکلریشن اور افغان راہداری تجارت کے ذریعے ہر سال اربوں ڈالر کا سامان ملک میں آرہا ہے۔ یہ لوگ کب چاہیں گے کہ خرید و فروخت کرنے والوں کا شناختی کارڈ نمبر رسید پر لکھا جائے۔ اسطرح تو اسمگلنگ کا مال بیچنا ممکن نہیں رہے گا۔ وہ لوگ بھی ہیں جو بیرون ملک سے درآمد تو دس ملین ڈالر کا مال کرتے ہیں لیکن دستاویزات میں اس کی قدر چھ سات ملین ڈالر ظاہر کرتے ہیں تاکہ کسٹم ڈیوٹی سے بچا جاسکے۔ بقیہ رقم ہنڈی کے ذریعے بھجواتے ہیں۔ اسے انڈر انواسنگ کہا جاتا ہے۔ جو لوگ برآمدات سے منسلک ہیں وہ اپنے مال کی ویلیو زیادہ ظاہر کرکے برآمدات پر ملنے والی سرکاری رعائتوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسے اوور انوائسنگ کہا جاتا ہے۔ ٹیکس چوری کے اس کلچر کا خمیازہ محنت کش عوام بھگت رہے ہیں جو اپنے استعمال کی ہر چیز پر ریاست کو ٹیکس دینے کے پابند ہیں۔ عام استعمال کی چیزوں پر بظاہر سترہ فیصد سیلز ٹیکس ہے لیکن مجموعی طور پر یہ چالیس فیصد سے کم نہیں کیونکہ مختلف مرحلوں میں ان اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی‘ ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈوانس انکم ٹیکس بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ اور تو اور حکومت بوڑھے پنشنرز اور بیوہ عورتوں سے بھی بچت اسکیموں سے ملنے والے منافع پر ٹیکس وصول کررہی ہے لیکن مالدار طبقے ہڑتالیں کرکے حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں تاکہ ٹیکس چوری کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ یہ ہماری قومی اخلاقیات ہے۔