31دسمبر کو حسب روایت میں نے اپنے آپ کو ’’اپنی‘‘عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا تو مجھے ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظم’’محاسبہ‘‘ یاد آ گئی۔ احتساب ذات پر کیا کمال کی نظم ہے۔ ہوا کہیں نام کو نہیں تھی اذان مغرب سے دن کی پسپا سپاہ کا دل دھڑک رہا تھا تمام رنگوں کے امتیازات مٹ چکے تھے ہر ایک شے کی سیہ قبا تھی شجر حجر سب کے سب گریباں میں سر جھکائے محاسبہ کر رہے تھے دن بھر کے نیک و بد کا طویل قامت حزیں کھجوریں کٹی ہوئی ساعتوںکے ماتم میں بال کھولے ہوئے کھڑی تھیں ادھر مرا دل دھڑک دھڑک کر عجیب عبرت بھری ندامت سے سوچتا تھا کہ آج کا دن بھی کٹ گیا ہے یہی حال فقیرکا بھی ہے کہ مرا دل بھی ندامت سے سوچتا ہے کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں نئے سال کے لئے کئی ارادے باندھے تھے‘ کئی عہد و پیمان کئے تھے‘ دو کتابیں لکھنے اور کم از کم چالیس پچاس کتابیں پڑھنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس کے علاوہ خدا سے لو لگانے اور خلق خدا کی خدمت کے کئی منصوبے بنائے تھے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مگر ارادوں کی تکمیل میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ میں سعودی عرب میں تھا تو ہر دوسرے تیسرے مہینے اپنا صحرائی احتساب کیا کرتا تھا۔ میں گاڑی میں کسی صحرائی سڑک پر ڈرائیو کرتا ہوا شہر سے بہت دور نکل جاتا اور پھر کسی سایہ شجر میں تن تنہا بیٹھ کر بیتے دنوں اور گزرے ہوئے لمحوں کا حساب بھی کرتا اور اپنا احتساب بھی کرتا۔ پاکستان واپس آ کر میں ہر سال دوسروں کے احتساب پر کمر بستہ رہتا ہوں اور اپنا احتساب بھول جاتا ہوں۔ بس 31دسمبر کو اپنے محاسبے کی ایک رسم پوری کر لیتا ہوں کہ یہاں رسم زمانہ یہی ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھوں تو ہماری قومی زندگی بھی میری ذاتی زندگی جیسی ہے۔ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔ سیاست دان آپس میں لڑتے رہے‘ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے رہے‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے اور پس پردہ قوتوں کے آلہ کار بنتے رہے اور پھر اچانک’’میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم‘‘ والے آ گئے۔ انہوں نے دستور کو ملیا میٹ کر دیا اور جادۂ جمہوریت پر سفر کو روک کر ایبڈو کے نام پر ایوب خانی احتساب نافذ کر دیا گیا۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان آئے تو انہوں نے احتساب کو چار چاند لگانے کے لئے بیک جنبش قلم سے 1300اعلیٰ افسران کو فارغ کر دیا۔ بیورو کریسی ایک منہ زور گھوڑا ہے۔ اگر اس کی لگامیں کھینچ کر رکھی جائیں تو وہ تیز رفتار ترقی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اگر اس کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ جائیں اور سوار اناڑی ہو تو بیورو کریسی محلاتی سازشوں کا آلہ کار بن جاتی ہے۔ محض انہیں فارغ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار تو عوامی ووٹوں سے آئے مگر انہوں نے روش بدترین آمروں جیسی اختیار کر لی۔1977ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک چلی اور ان کی اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ کہیں سے بھٹو کے دماغ میں اپوزیشن کو کچلنے کا خیال آ گیا۔ نتیجہ کیا ہوا نہ رہا بانس نہ بجی بانسری، باقی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ جنرل ضیاء الحق سیاست دانوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر برسر اقتدار آئے، انہوں نے 90روز میں دوبارہ الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ مگر پھر انہیں پاکستان کی حالت سنوارنے کا خیال آ گیا اور انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ اس نعرہ کی برکت سے جنرل صاحب گیارہ برس تک پاکستان کی قسمت سنوارتے رہے۔ اس دوران سیاست دانوں نے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ دس برس تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہیں۔ انہیں ہوش آیا تو دونوں لیڈر جبری یا خود اختیاری جلاوطن کے ایام گزار رہے تھے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان مئی 2006ء میں میثاق جمہوریت طے پا گیا۔ مگر اگلے دن دس برس پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی لڑائی مارکٹائی جاری رہی۔ فرد ہو یا کوئی ادارہ‘ حکومت ہو یا سیاست دان۔ ہر لمحہ احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ احتسابی عمل کے دوران کسی چھوٹے بڑے کے درمیان کوئی تمیز نہیں۔ ملک کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی مگرمچھوں سے واپس آنی چاہیے۔ہمارے ہاں جو یہ روایت پروان چڑھ رہی ہے کہ باقی سارے کام چھوڑ کر صرف حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں کا احتساب کیا جائے اور اقتدار سے وابستہ سیاست دانوں کے بارے میں غضّ بصر سے کام لیا جائے اس سے انتقام کی بو آتی ہے۔ یہ سخت نقصان دہ ہے۔ اپوزیشن کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی۔ کسی سیاست دان کو سنجیاں گلیاں کروا کر اس میں بلا شرکت غیرے سلطانی و حکمرانی کا شوقِ فضول دل سے نکال دینا چاہیے۔ اگرچہ سینئر سیاست دان چودھری نثار اس وقت نہ حزب اقتدار میں ہیں نہ حزب اختلاف میں مگر ان کی باتوں میں گہری سچائی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ احتساب ضرور ہونا چاہیے مگر احتساب متنازع نہیں ہونا چاہیے۔ بقول چودھری نثار متنازع احتساب ملک کے لئے زہر قاتل ہے۔ سینئر سیاست دان کی رائے میں اپوزیشن کو سانس لینے دینا چاہیے۔ میں جب کبھی امریکہ جاتا ہوں تو دو چار گورنر اور کچھ سیاست دان کرپشن کے الزامات میں جیل میں ہوتے ہیں مگر یہ ٹیلی ویژن‘ اخبارات یا سوشل میڈیا پر کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہوتی، یہی حال چین کا بھی ہے۔ ہم صرف اپنے احتسابی اداروں کو اپنا کام کرنے کیوں نہیں دیتے۔ موجودہ حکومت کے وزراء اپوزیشن کے سیاست دانوں کی گرفتاری کی ’’خوش خبری‘‘ پہلے ہی سنا دیتے ہیں۔ ماضی میں ایک دوسرے کو گرانے اور نیچا دکھانے کا جو کام پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کرتی رہی ہیں اب وہی کام پی ٹی آئی ان دونوں جماعتوں کے خلاف کر رہی ہے۔ تجاوزات ہٹانے اور عمارتیں گرانے کی مہم میں بے شمار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اگر سیاست دان 70ماضی میں ہونے والی باہمی سر پھٹول کا جائزہ لیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہی کی باہمی آویزش نے ملک کو عدم اعتماد سے دوچار کیا۔ اگر ہر کوئی اپنے گریباں میں جھانکے اور اپنا اپنا محاسبہ کرے تو پھر میں ہی نہیں ساری قوم عبرت بھری ندامت سے سوچے گی کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے۔