نیازی حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی حکومت کو ہم بھلا کیا نام دیں جب ایک دو نہیں ایک درجن سیاسی پارٹیاں بر سرا قتدار ہیں اور جن میں کچھ اور مشترک نہیں سوائے اسکے کہ وہ تبدیلی کے نام سے چڑتی ہی نہیں بلکہ اسے فتنہ بھی سمجھتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی کی 'نگاہ کرم 'سے آئی ہے۔ معلوم وجوہات کی وجہ سے ہم اس معاملے کو غیر جانبداری کے عدسے سے نہیں بلکہ 'بے نیازی' کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا استدلال ہے کہ بے نیازی ظلم ہے اور یہ کہ 'سرکار' غیر جانبداری کے چکر میں 'بے نیازی' کی آخری حدود کو بھی پار کرگئی ہے۔ بات سیدھی سی ہے۔ جمہوریت اچھی چیز ہے ۔ شواہد سے ثابت ہے کہ یہ نظام حکومت سرمایہ دارانہ نظام سے پھوٹنے والی ناہمواریوں کے باوجود عوام کو بالا دست طبقوں کے جبر سے بچا سکتا ہے بشرطیکہ شہریت کا عالمی تصور ،احتساب ، مقامی حکومتوں اور ترقی پسند ٹیکسوں کے نظام اور علاقائی تجارت جیسے عوامل کار فرما ہوں۔ ہم سیاسی پارٹیوں ، اور وہ بھی شاہ پرست، سے گلہ فضول سمجھتے ہیں۔ وہ دن کو رات کہیں اور رات کو دن ، سب قبول ہے۔ دور نہیں جاتے ، انیس سو اکہتر کے بعد کی ابتدا ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر ) سے ہوئی تھی۔ اسی کی روشنی میں آئین ، انتظامی ڈھانچہ بنا اوراداروں کی سمت طے ہوئی۔ سزا و جزا کا نظام برطانوی دور سے ہی رائج ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے غلطی ہونے کا امکان رہتا ہے کہ بدیسی تصورات پر مبنی سیاسی ، مالی اور معاشرتی ڈھانچے کو اکیسویں صدی میں 'گیڑا ' لگانا بچوں کا کھیل نہیں۔ ڈرامہ بازی بھی کرنا پڑتی ہے کہ کہاں ایک جاگیردارانہ معاشرہ اور کہاں جمہوریت۔ سیاستدان ٹھوکر کھائیں ، جو کہ ایک فطری سے بات ہے تو معافی تلافی کا راستہ (این آر او ) بہر حال موجود ہے۔ غلطی کا اعتراف اور معافی پر یقین میں سیاستدانوں کی فلاح رکھی گئی ہے۔سرکار کو مسئلہ ہے تو ضد سے۔مثالیں موجود ہیں۔ اعظم سواتی اور شہباز گل پر کیا بیتی ہے؟ نواز شریف پہلے بھی جلاوطن ہوئے تھے اور بینظیر بھٹو کے پیچھے پیچھے ، براستہ میثاق جمہوریت ، واپس آگئے تھے۔اب بھی واپس آجائیں تو حیرت نہیں ہوگی۔ یہ تو عمران خان کا شورِ احتساب تھا کہ عوام کچھ نازک مزاج ہوگئی ہے ورنہ تو ہماری تاریخ معجزوں سے مزین ہے۔ یوں یہ فضول ہی ہوا ناکہ حکومتی اتحاد کو یاد دلایا جائے کہ وہ مہنگائی کا نعرہ مار کر میدان میں آیا تھا، اسے دھرنوں اور لانگ مارچ کی بھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اقتدار اس کی جھولی میں ہی تو آکے گرا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سب' سرکار ' کی 'نگاہ کرم 'تھی کہ عوام پر تبدیلی کا جادو کرنے والے ایوان اقتدار سے باہر لڑھکا دیے گئے تھے۔ ان پر جو بھی بیت رہی سب انکی ضد کی وجہ سے۔ہمارا سرکار سے گلہ یہ ہے موجودہ حکمرانوں کے لچھن کچھ زیادہ ہی خراب ہیں۔ انہوں نے آتے ہی وہ غلطی کی ہے جس پر سرکار کو غیظ وغضب میں نہیں تو 'جلال 'میں ضرورآجانا چاہیے تھا۔ یعنی جس مہنگائی کو 'مار مکانے 'کے لیے میثاقی جماعتیں اقتدار میں آئی تھیں انہوں نے آتے ہی ا سے پکا بڑھا دیا۔ تیل ، گیس ، بجلی اور ٹیلیکام پرمہنگائی نواز ٹیکس لگانے کی بدعت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ خوردنی تیل اور دالوں کو بھی نہیں بخشا۔ عوام بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنسے کر اہ رہے ہیں لیکن سرکا ر ہے کہ گھونگھٹ مار کر بیٹھی ہے۔ سرکار کی توہین کا پہلو بھی نکلتا ہے کہ کرونا وائرس اور اقتصادی جمود کے تناظر میں جہاں حکومت کو اشیائے ضروریہ پر سے ٹیکس ختم کرنا تھے اس نے عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر ان میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ عوام کے ارمان تو خاک میں ملے ہی، سرکار سے مشورہ بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اس ملک کی تاریخ جو بھی رہی ہو لیکن ایسا نہیں ہوا کہ عوام سرکار سے مایوس ہوئے ہوں۔ کہاں سرکار مائی باپ تھی اور کہاں جمہوریت کی سحر میں جکڑی لولی ، لنگڑی اور محتاج۔ وہ شاہ پرست پارٹیاں جو امریکہ ایسی بڑی اور مہان جمہوریت کو دھوکا دیتی آرہی ہیں ، اب سرکار کو اسی جمہوریت کے نام پر چونا لگا گئی ہیں۔ جمہوریت کی پٹی پڑھا کر اسے غیر جانبدار بنا دیا۔ کوئی سیدھے رستے سے آئے یا چور رستے سے۔ مینڈیٹ کچھ ہو لیکن کر ے اس کے الٹ ، کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔کیونکہ جمہوریت ہے۔ اب سرکار کوکوئی کیا سمجھائے کہ غیر جانبداری کا مطلب بے نیازی بالکل نہیں ہے۔ اس ملک میں بہت کچھ 'کھپے 'ہوسکتا ہے لیکن بے نیازی ' نہ کھپے'۔ کیونکہ غیر جانبداری جائز ہے کچھ تقاضوں کے ساتھ ہی جائز ہے لیکن ان تقاضوں سے ' بے نیاز ' غیر جانبداری سراسر ظلم ہے۔ بصد نیاز، سرکار اس ظلم کی مرتکب ہورہی ہے!