فارسی زبان کے نامور شاعر، مصنف ،حافظ شیرازی کا نام محمد لقب شمس الدین اورحافظ تخلص تھا۔ ان کی سوانح کی تمام کتب میں ان کے سال ولادت کے متعلق اختلاف منقول ہے ۔ عمومی طور پر مورخین نے حافظ شیرازی کا سال ولادت 726 ھ اور 729ھ کے درمیان قرار دیا ہے تاہم زیادہ تر محققین نے ان کا سال ولادت 726ھ ہی مانا ہے ۔آپ کے والد گرامی کا نام بہاؤالدین یا کمال الدین تھا جبکہ دادا کا نام غیاث الدین تھا۔ آپ کے والد تجارت پیشہ تھے وہ ابتدائی طور پر اصفہان میں قیام پذیرتھے ۔ بعد میں بسلسلہ تجارت شیراز آئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ آپ کے والد گرامی بچپن میں فوت ہوگئے تھے چنانچہ آپ کا بچپن یتیمی کی حالت میں گزرا تھا۔جو مال ان کے والد نے پس انداز کیا تھا وہ جلد ہی ختم ہوگیا۔حافظ شیرازی کے دونوں بھائی تلاش معاش میں شیراز سے نکل گئے لیکن حافظ اپنی والدہ کے ہمراہ وہیں پر قیام پذیر رہے ہے بچپن میں خود کو سخت کوشی کا عادی بنایا اور ایک تنور پر آٹا گوندھنے کی مزدوری کرنے لگے اگرچہ ان کے اپنے حالات ناگفتہ بہ تھے لیکن پھر بھی ان کا دل غنی تھا۔وہ ملنے والی مزدوری کے تین حصے کرتے ۔ ایک حصہ اپنی والدہ کی خدمت میں پیش کرتے ۔ایک حصہ اپنے اساتذہ کرام کی خدمت میں پیش کرتے تھے جن سے وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے اور تیسرا حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیتے ۔ انہوں نے اپنے دور کے جید اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور جوانی کے عالم میں ہی علوم کی تحصیل سے فارغ ہوگئے ۔ان کے زمانے میں میں ایران عام طور پر جب کہ شیراز خاص طور پر شعر و ادب کا مرکز تھا ۔کئی نامور شعراء شیراز میں قیام پذیر تھے ۔اور ان کے کلام کا طوطی پورے ایران میں بولتا تھا۔اس ماحول میں حافظ شیرازی نے شاعری شروع کی ابتدائی طور پر حافظ شیرازی سرکار دربار سے بہت قربت رکھتے تھے اور اس وقت کے دستور کے مطابق بادشاہوں کے قصیدے بھی نظم کیا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے تمام بادشاہ نہ صرف آپ کی شاعری کے قائل تھے بلکہ مختلف اوقات میں ان کو انعام و اکرام سے بھی نوازتے تھے ۔ حافظ شیرازی نے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔شیخ جمال الدین ابواسحاق ان کا بڑاقدردان تھا آپ اس کے دربار سے وابستہ رہے ۔اس کا1353ء میں انتقال ہوا اس کی وفات کے بعد بعد مبارزالدین پانچ سال تک سریرآرائے مملکت رہا۔ا نکی وفات کے بعد ان کے بیٹے جلال الدین شاہ شجاع مسند اقتدار پر فائز ہوئے جن کا دور اقتدار 1357ء سے لے کر کر تین 1384ء پر محیط تھا۔اس کی وفات کے بعد شاہ منصور بن شرف الدین نے عنان نے حکومت سنبھالی۔حافظ شیرازی نے ان سب بادشاہوں کی تعریف و توصیف کی اور ان کے درباروں سے قربت رہی۔حافظ کے کلام کی شہرت سرحدوں کی قیود سے نکل کر چار دانگ عالم میں پھیل گئی مختلف بادشاہوں نے ان کو اپنے اپنے ملک میں بلایا اور انعام و اکرام کی پیشکش کی۔سلطان احمدبن شیخ اویسی والی بغداد نے آپ کو بغداد آنے کی دعوت دی محمود شاہ بہمنی نے ا ن کو دکن بلایا غیاث الدین بن سکندرنے بنگال بلایا اور زادِ راہ بھی بھجوایا لیکن حافظ نے اپنا کلام تو بھیج دیا لیکن شیراز چھوڑنا پسند نہ کیا بلکہ ایک دفعہ دکن جانے کیلئے بندرگاہ پر پہنچے جہاز پر سوار ہوئے گئے لیکن باد مخالف کے باعث ارادہ ترک کر دیا اور واپس شیراز آگئے ۔حافظ شیرازی کی شاعری خصوصیات:حافظ شمس الدین شیرازی نے زیادہ کتب تحریر نہیں فرمائیں ان کے سوانح نگاروں کے مطابق ان کا سارا کلام محفوظ بھی نہیں ہے اس وقت جو کلام ہمارے پاس کتابی شکل میں موجود ہے وہ ان کے ایک شاگرد اور دوست ’محمد گل اندام‘ نے مرتب کیا تھا۔اسی کو دیوان حافظ کہا جاتا ہے ۔یہ دیوان غزلیات، قصائد، قطعات اور چند رباعیات پر مشتمل ہے ۔دیوان حافظ اپنی ضخامت کے اعتبار سے کم اور اپنے معنوی حسن کے اعتبار سے زیادہ شہرت کا حامل ہے ۔ دیوان حافظ ان کی تمام زندگی کا حاصل ہے جو ہر دور میں مقبول خاص و عام رہا ہے ہے انہوں نے کمال بلاغت اور ایجاز سے عاشقانہ اور عارفانہ کیفیات کو ایک ساتھ جمع کیا ہے ۔ان کے متعلق کہا جاتا ہے ان کی شاعری عشق مجازی سے متاثر تھی لیکن بعد میں جب راہ سلوک پر سفر شروع کیا تو ان پر عشق حقیقی کا رنگ غالب آگیا۔حافظ شیرازی کے کلام میں مولانا روم کے حکمت کے موتی ملتے ہیں اور سعدی کا درس عشق بھی۔ انھوں نے بعض مقامات پر سعدی و رومی کی پیروی بھی کی دیوان حافظ کی20 سے زائد غزلیات سعدی کی بحر میں ہیں اور ان غزلیات میں سعدی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔بعض غزلیات میں مولانا روم کی جھلک نظر آتی ہے مگر الفاظ کے انتخاب تراکیب کے استعمال معنی خیزی اور دل آویزی میں ان کا اپنا رنگ ہی نمایاں ہے ۔ کلام کی مٹھاس:حافظ شیرازی کے کلام میں ایک خاص طرح کی شیرینی ہے ۔اکثر شعراء کے دیوان میں چند ایک غزلیات یااشعار ایک خاص رنگ میں ہوتے ہیں تاہم دیوان حافظ کا ہر شعر پہلے شعر سے بڑھ کر ہے ہر غزل دوسری غزل سے بڑھ کر لطف سے بھرپور ہے بسم اللہ سے شروع ہو کر آخر تک آپ کے کلام میں ایک ایساسحر ہے جو اپنے قاری کو جادو میں جکڑ لیتا ہے ۔ تصوف کی چاشنی: حافظ شیرازی کے کلام میں تصوف اور محبت الہی کا رنگ غالب ہے ۔ وہ مروجہ صوفی سے بیزار ہیں جس نے بظاہر تو جبہ و دستار پہنا ہوا ہے لیکن اس کا من گدلا ہے ۔وہ ایسے صوفی کے قائل ہیں جس کا ظاہر و باطن ایک ہو۔ وہ واعظ بے عمل سے بھی بیزار ہیں اور باعمل شخص کو اپنے سرکاتاج خیال کرتے ہیں ان کے کلام کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی عمر کے آخری آیام محبت الہی میں ڈوب کر گزرے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع اپنے دل میں روشن کی ہوئی تھی جس کی روشنی دیوان حافظ کے ہر شعر اور ہر غزل میں نمایاں نظر آتی ہے ۔ صوفیا اور اہل تصوف کا ذکر:حافظ کے دور کے صوفیاء یہ ان کے مقررکردہ معیارپر کم ہی پورا اترتے تھے اس لیے وہ ان کو اکثر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن ساتھ ہی ان کی شاعری میں یہ پیغام بھی موجود ہے کہ نجات کا راستہ دراصل وہی ہے جو اہل حق کا راستہ ہے انہوں نے ریاکاری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کو تصوف کی تعلیمات کے منافی قرار دیا انہوں نے جب راہ تصوف اختیار کی تو اس وقت ان کا شباب گزر چکا تھا وہ ہر وقت جذب و کیف کے عالم میں رہتے تھے حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف اپنی سیاحت کے دوران شیراز تشریف لے گئے اور حافظ شیرازی سے کئی مرتبہ ملے انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگرچہ حافظ شیرازی بظاہر مجذوب ہے لیکن وہ حقیقت میں خدا کا محبوب ہے حافظ نے 1389 عیسوی میں وفات پائی اورمصلی میں مدفون ہوئے ۔