گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے اس سال گندم کی ریکارڈ پیداوار کا ذکر کیا اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اسکو اپنی حکومت کی اچھی کارکردگی سے جوڑ دیا۔ اس سال گندم کی پیداور میں ریکارڈ اضافہ کی وجہ حکومت کی بر وقت بیج کی فراہمی اور کھاد کی ذخیرہ اندوزی پر کنٹرول ہے۔ حکومت کی شاندار کارکردگی کا ثبوت یہ ہے آج بھی کھادکسان کو سرکاری ریٹ پر نہیں مل رہی۔ یوریا کھاد جس کی قیمت 2600 فی بیگ کے قریب ہے کسان آج بھی 3300 اور 3400 میں خریدنے پر مجبور ہے۔ ڈی اے پی کھاد کسان کو گندم کی بوائی کے وقت 15000 کے قریب مل رہی تھی۔ نا تو حکومت اب تک کھاد کو کنٹرول کر سکی ہے اور نا ہی اس پیداوار میں حکومت کا ہاتھ ہے۔ پنجاب حکومت نے مجبوری کے عالم میں گندم کی قیمت 4000 کی ہے جبکہ سندھ حکومت بہت دن پہلے 4000 روپے فی من گندم کا اعلان کر چکی تھی۔ اس سال گندم کی پیداوار کی وجہ وہ موسم ہے جو اب تک گرم نہیں ہے۔ گندم کی فصل کو اچھی پیداوار کے لئے سرد موسم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سال یہ موسم ابھی تک ٹھنڈا ہے۔ ہمارے ہاں 20 فروری کے بعد موسم بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے اور اکثر مارچ کا مہینہ کافی گرم ہوجاتا ہے جس کی بنا پر گندم کی پیداوار کم رہتی ہے۔ گزشتہ سال جہاں پیداوار 40 تا 45 من فی یکڑ تھی اس بار 55 تا 65 من فی ایکڑ ہے۔ یہ اعداد وشمار کسی ادارے کے فراہم کردہ نہیں ہیں۔ یہ میں نے خود کسانوں نے حاصل کئے ہیں۔ اس سال عام پیداوار 55 من سے زائد ہے۔ اب وزیر اعظم صاحب کے بیان کو کس تناظر میں دیکھا جائے؟۔ یا تو ان کو زراعت کا علم زیادہ نہیں ہے یا وہ ہر بہتر چیز کا کریڈٹ حسب معمول اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اس وقت اگر ہم دنیا کے ان ممالک کو دیکھیں جہاں فی ہیکٹر پیداوار سب سے زیادہ ہے۔جرمنی میں گندم کی پیداوار فی ہیکٹر 7 اعشاریہ چھ میٹرک ٹن ہے۔فرانس کی پیداوار 5 اعشاریہ تین میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ چین میں گندم کی پیداور پانچ ٹن فی ہیکٹر سے کے قریب ہے۔ انڈیا میں تین سے کچھ زیادہ اور پاکستان میں تین میٹرک ٹن فی ہیکٹر سے کم ہے۔ بر طانیہ، ڈنمارک میں گندم کی پیداوار سات میٹرک ٹن فی ہیکٹر سے زائد ہے۔ آئر لینڈ میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار 11 ٹن فی ہیکٹر ہے۔ جو کہ 110 من فی ایکڑ کے قریب ہے۔ پاکستان کی اوسط پیداوار 26 من فی ایکڑ ہے۔ اچھے علاقوں میں پیداوار 40 کے قریب اور کچھ علاقوں میں 10 من سے بھی کم ہے۔ پاکستان کی اس سال کی پیداور 27 ملین ٹن سے زائد ہے اور تقریبا پاکستان کی ضرورت بھی اسکے قریب ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے چار ماہ میں گندم کی قیمت 4500 سے 5000 فی من تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سال جو دوسرا بحران سر اٹھا سکتا ہے وہ چینی کا ہے۔ گنے کی کاشت بہت کم ہے۔ پرانا کماد بھی بہت سے کسانوں نے ختم کر دیا ہے۔ اس سال چینی کی پیداور بھی کم ہو گی۔ پاکستان کے عوام اس وقت الیکشن میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے علم میں نہیں ہے کہ اس سال دودھ کی قیمت کہاں تک جا سکتی ہے۔ توڑی کی جو ٹرالی گزشتہ سال 4000 روپے کی تھی -اس سال 9000 کی ہے۔ چارے اور ونڈے کی قیمت میں اس سال میں 100 فی صد سے زائد اضافہ ہو گیا ہے۔ اب دودھ کی قیمت بہت جلد 200 روپے فی لیٹر سے اوپر چلی جائے گی۔ اگر کسان کو زیادہ مجبور کیا گیا تو کسان جانور پالنا چھوڑ دینگے۔ اس وقت کمر شل ڈیری فارمنگ خسارے کا سودا ہے اسی طرح گوشت کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ انڈا اس وقت بھی 25 روپے کے قریب ہے۔ 2023ء اور 2024ء انڈے کے بحران کا سال ہو سکتا ہے۔فیڈ کی قیمت 100 فی صد سے زائد ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ان دو سال میںخوراک بہت زیادہ مہنگی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک ان مسائل پر نا کوئی غور کر رہا ہے اور ناہی اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ اس ایک سال میں ابھی صرف آٹا کی قیمت بڑھی ہے۔ آنے والے دو سال میں انڈے، دودھ ، گوشت سب کچھ بہت مہنگا ہو جائیگا اور پھر اس مہنگائی کا بوجھ گزشتہ حکومت پر نہیں ڈالا جا سکے گا۔ ویسے تو اس وقت گرمی کے موسم کا آغاز ہے مگر مجھے ایک مشہور سیریل کا ایک فقرہ بار بار یاد آرہا ہے۔ ونٹر آگیا ہے۔ وہاں ونٹر سے مراد مشکل وقت ہے۔ جہاں سردی ہے ، فاقے ہیں اور بیرونی حملہ اوروں کا خطرہ ہے۔ اس وقت پاکستان کی معاشی، سیاسی اور آئینی صورتحال دگرگوں ہے۔ چوہدری پرویز الہی کے گھر پر چھاپہ کسی پرانی انگلش فلم کا ٹریلر محسوس ہو رہا تھا جہاں قلعے کا میں گیٹ اسی طور سے توڑا جا تا ہے۔ مجھے پرویز الہی کی ذات سے سو اختلاف ہو سکتے ہیں مگر جس طور سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو ا ہیاس کے لئے شرمناک سے کم کوئی دوسرا لفظ نہیں ہو سکتا۔ افسوس ناک والی بات بالکل نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت بری روایت پڑ رہی ہے۔ آج مجھے بیگم کلثوم نواز مرحومہ کی یاد آ رہی ہے ۔ قبر میں انکی روح بھی بے چین ہوئی ہوگی۔کن لوگوں کے ساتھ کون لوگ یہ سلوک کر رہے ہیں۔ چوہدری برادران نے شریف خاندان کے ساتھ اتنا برا تو تو نہیں کیا۔ وفاداری بدلنا پاکستان کی سیاست کا عام چلن ہے مگر گھریلو خواتین کے ساتھ یہ سلوک انتہائی شرمناک ہے۔ کاشف عباسی کے پروگرام میں چوہدری شافع حسین خود بھی لاجواب تھے اور ان سے کوئی جواب بن نہیں رہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اب چوہدریوں میں مفاہمت کا کوئی امکان نہیں رہا۔جاتے جاتے آخری بات اس حکومت کی اعلی کارکردگی کی بنا پر 2 مئی کا موسم بھی کافی خوشگوار ہے۔ ٭٭٭٭