آج بائیس جمادی الثانی ہے ، آج سے 1432 سال قبل ،و ہ عظیم المرتبت اور رفیع الشان ہستی دنیا سے رخصت ہوئی ، جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’بلاشبہ اپنی مصاحبت اور اپنے اموال کے ذریعے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ پر احسان ابوبکر بن قحافہ کے ہیں ، اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو خلیل یعنی جگری دوست بناتا تو ابو بکرصدیق ؓ کو بناتا ، مگر اسلام کا بھائی چارہ اور اسلامی محبت ان کے ساتھ سب سے زیادہ ہے ۔ دیکھو! مسجد نبوی کی طرف کسی بھی دوسرے صحابی کا دروازہ نہ ر ہے ، مگر یہ کہ ان سب دروازوں کو بند کردیا جائے ، سوائے ابوبکر کے دروازے کے، یعنی اسے کھلا ر ہنے دیا جائے "۔غالب گمان یہی ہے کہ ایسے ہی سرد ایام ہوں گے ، جن میں آپؓ کا وصال ہوا، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپؓ کی مرض الموت کا آغاز کچھ یوں ہواکہ آپؓ نے غسل فرمایا اور یہ انتہائی سَرد دن تھا ، آپ پر بخارطاری ہوگیا اور پندرہ دن تک مسلسل بخار رہا ، حتی کہ نماز کے لے نکلنا بھی ممکن نہ رہا ، آپؓ کے حکم سے حضرت عمر فاروقؓ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے ، صحابہ برابر آپؓ کی عیادت کے لیے آتے ، جب آپ کی بیماری شدّت اختیار کر گئی تو صحابہ نے عرض کی کہ آپؓ کے لیے کیوں نہ طبیب کو بلایا جائے ، آپؓ نے فرمایا !طبیب نے مجھے دیکھا ہے اور اس نے کہا کہ یقینا جو میں چاہتا ہوں کر گزر تا ہوں ۔ سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ باباجان نے مجھے فرمایا ـ:ـ’’ دیکھو جب سے میں نے خلافت سنبھالی ہے میرے مال میں کتنا اضافہ ہوا ہے ، یعنی آڈٹ ٹیم میرے اثاثوں کا جائزہ لے ، میرے عہد ِ خلافت میں، میری جائیداد میں جو اضافہ ہوا ہے ، وہ ریاست کے سپرد کر دیئے جائیں ، یعنی بیت المال میں جمع ہوں ‘‘۔ حساب سے پتہ چلا کہ ایک حبشی غلام تھا جو آپؓ کے بچوں کو سنبھالتا اور ایک اونٹ تھا ، جس سے آپؓ کا باغ سیراب ہوتا ، ہم نے ان دونوں کو حضر ت عمر ؓ کے پاس بھیج دیا ، یہ دیکھ کر عمرؓ رو پڑے اور کہنے لگے :’’اللہ ابوبکر پر رحم کرے،انہوں نے اپنے بعد والوں کے لیے بڑی مشکل پیدا کردی ‘‘۔ حضرت عائشہ ؓہی روایت کرتی ہیں کہ جب مرض الموت میں مبتلا تھے ، موت کے عوارض ، آپؓ کو لاحق ہوئے تو سانس آپؓ کے سینے میں تھا ، اس موقع کی مناسبت سے میں نے یہ شعر پڑھا ۔ لَعَمْرُ کَ مَا یُغْنِی الثَّرَائُ عَنِ الْفَتٰی اِزَاحَشْرَجَتْ یَوْمًا وَضَاقَ بِھَا الصَّدْرُ ’’تمہارے دین کی قسم !مال ودولت نوجوان کومفید نہیں ہوسکتا ، جبکہ روح اٹک جائے اور سینہ تنگ ہو جائے‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے :ابو بکر ؓ کی وفات کا جب وقت آیا تو فرمایا کہ عمر نے مجھے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میں نے بیت المال سے چھ ہزار درہم لیئے ، میرا فلاں باغ جو فلاں جگہ ہے اس کے عوض ہے ۔ جب آپؓ کی وفات ہوگئی تو عمر ؓ سے اس کا ذکر کیا گیا ۔ یہ سن کر آپؓ نے فرمایا :اللہ ابو بکرؓ پر رحم فرمائے ، آپؓ نے یہ چاہا کہ آپؓ کے بعد کوئی آپ ؓپر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ آپؓ مسلسل پندرہ دن تک بیمار رہے ۔ جب آپؓ کی زندگی کا آخری دو شنبہ آیا ، ام المومنین فرماتی ہیں :آپؓ نے مجھ سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کی وفات کس دن ہوئی تھی ؟میں نے عرض کیا :دوشنبہ کے دن ۔ فرمایا :میری بھی یہی آرزو اللہ تعالیٰ سے ہے ۔ پھر پوچھا :کتنے کپڑوں میں آپﷺکو کفن دیا گیا تھا ؟ام المومنین نے عرض کیا :تین یمنی سوتی چادروں میں، نہ تو اس میں قمیض تھی اور نہ عمامہ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا :تم میرے اس کپڑے کو دیکھو اس میں زعفران یا مشک لگا ہوا ہے اس کو دھو دو، اور اس کے ساتھ دو کپڑے اور شامل کرلو۔ آپؓ سے عرض کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر عطا کیا ہے ، ہم آپؓ کو نئے کپڑے میں کفن دیں گے ۔ فرمایا :میّت کی بہ نسبت زندہ شخص نئے کپڑوں کا زیادہ مستحق ہے تاکہ اپنی ستر پوشی کرے ۔ آپؓ نے وصیت فرمائی کہ آپؓ کو آپؓ کی بیوی اسماء بنت عمیس ؓ غسل دیں اور رسول اللہﷺکے پہلو میں دفن کیا جائے ۔ اس دنیا سے رخصت ہوتے ، آپؓ کے آخری کلما ت یہ تھے : تَوَ فَّنِیْ مُسْلِمًاوَّاَلْحِقْنِیْ بِاالصّٰلِحِیْنَ "تومجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکو میںکردے "۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی آرزو پوری کی ۔22 جمادی الثانی13 ہجری دوشنبہ کا دن گزار کرسہ شنبہ کی رات انتقال فرمایا ۔ آپؓ کی وفات سے پورے مدینہ پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ رسول ﷺکی وفات کے بعد اس غمگین شام سے بڑھ کر کسی دن مدینہ میں زیادہ رونے والے نہ پائے گئے ۔ وفات کی خبر سنتے ہی علی ؓ روتے ہوئے ، انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے ابو بکر ؓ کے گھر آئے اور فرمایا :اللہ آپؓ پر رحم فرمائے !آپؓ رسول اللہ ﷺکے محبوب ، مونس ، معتمد علیہ ، راز دار مثیر تھے ۔ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ، سب سے بڑھ کر مخلص اور سب سے زیادہ اللہ پر یقین رکھنے والے ، سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے ، سب سے بڑے دیندار ، سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺکی حفاظت کرنے والے ، اسلام پر سب سے زیادہ مہربان ، سب سے بہترین صحبت والے ، سب سے زیادہ مناقب والے ، سب سے افضل ، سب سے بلند مقام کے مالک، سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق و عادات میں رسول اللہ ﷺسے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے اور آپؓ کے نزدیک سب سے زیادہ اشرف ، ارفع اور مکرم تھے ۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کو رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے ۔آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کی اس وقت تصدیق فرمائی جب لوگوں نے آپ کی تکذیب کی ۔ آپؓ رسول اللہ ﷺکے نزدیک آنکھ و کان کی طرح تھے ۔ اللہ نے آپؓ کو قرآن میں صدیق قرار دیا ۔ آپؓ نے رسول اللہ کے ساتھ مواسات کی جبکہ لوگوں نے بخیلی کو ثبوت دیا ۔ ناپسندیدہ حالات میں آپؓ ان کے ساتھ رہے ، جبکہ لوگ بیٹھ گئے ۔ سخت حالات میں اچھی صحبت کا ثبوت دیا ۔ دو میں دوسرا ، یارغار رہے ، آپؓ پر سکینت کا نزول ہوا، ہجرت میں آپ کے رفیق سفر رہے ، اللہ کے دین اور امت میں آپ کے خلیفہ بنے ، جب لوگوں نے ارتداد اختیار کیا آپ نے خلافت کا حق ادا کیا ۔ آپؓ نے تو وہ کارنامہ انجام دیا جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہیں دیا ۔ آپؓ اس وقت اٹھے جب دوسرے لوگ کمزور پڑگئے ، نکلے جب لوگ بیٹھ گئے ، قوی بن کر ابھرے جب لوگ کمزور ہوگئے ۔ آپ ؓکے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ تھا جو اللہ کا سب سے زیادہ طاعت شعار اور متقی ہو۔ حق، صداقت اور نرمی آپؓ کی شان تھی ۔ آپ ؓکی بات فیصلہ کن اور حتمی ہوا کرتی تھی ۔ آپؓ کا حکم بردباری اور دور اندیشی پر مبنی ہوا کرتا تھا ۔ آپ ؓکی رائے علم و عزم کا پر تو ہوتی تھی ۔ آپؓ کے ذریعہ سے دین قائم ہوا، ایمان قوی ہوا، اللہ کا حکم غالب آیا ۔ واللہ آپؓ نے بڑی سبقت کی ، اپنے بعد میں آنے والوں کو سخت تھکادیا اور خیر کے ساتھ فوزمبین حاصل کی ۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔