سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کا فیصلہ کر دیا ۔ فیصلے کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن 14 مئی کو ہونگے۔تین رکنی بنچ جو چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز احسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تھا۔ اس فیصلے کے کیا اثرات ہونگے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ ۔ اب پاکستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے تو مجھے ایک پرانا لکھاری یاد آرہا ہے۔جس نے بہت عرصہ پہلے کچھ سبق آموز کہانیاں لکھی ہیں۔ ڈپٹی نزیر احمد نے ان کہا نیوں کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ وہ ترجمہ کافی پرانا ہے اسکی زبان اب شاید کچھ لوگوں کو مشکل لگے میں نے سوچا کہ میں عام زبان میں ان کہانیوں کو دہرا دوں۔ ان کہانیوں میں سے کچھ لوگ پاکستان کی مطابقت نکال لیں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کہانی نمبر1-بھیڑیا اور میمنا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بھیڑیا دریا کے کنارے پانی پی رہا تھا اس کی نظر بھیڑ کے بچے پر پڑی جو دریا کے بہائو کی سمت نچلی طرف پانی پی رہا تھا۔ بھیڑیا کی نیت میں فتو ر آیا اور وہ بھیڑ کے بچے کی طرف گیا اور اس سے کہنے لگا تم پانی کو گدلا کر رہے ہو۔ میمنے نے جواب دیا جناب پانی آپ کی طرف سے آ رہا ہے میں کیسے پانی کو خراب کر سکتا ہوں۔ بھیڑیا بولا تم بہت بحث کرتے ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ تم نے منطق پڑھ رکھی ہے جو تم ہر بات کا جواب دیتے ہو۔ تمہارے باپ کی بھی یہی عادت تھی۔ مجبورا مجھے اسکا خون کرنا پڑا تھا۔ میمنا بولا۔جناب میرے باپ کو کسی بھیڑئے نے نہیں مارا بلکہ میرے مالک کے بیٹے کا حقیقہ تھا جس میں میرے باپ کو ذبح کیا گیا۔بھیڑیا یہ بات سن کر مزید غصے میں آگیا اور کہنے لگا تم بحث بہت کرتے ہو اور تمہاری یہ مجال کہ مجھے جھوٹا کہو ۔ یہ کہہ کر بھیڑیا میمنے پر جھپٹا اور اسکو چیر پھاڑ کے رکھ دیا۔ اخلاقی سبق: ظالم جب ظلم کرنے پے آتا ہے تو اسکو دلیل کے ساتھ نہیں روکا جا سکتا۔ کہانی نمبر2: شیر، بھیڑیا، ریچھ اور چیتا ایک دفعہ جنگل میں شیر، چیتے ،ریچھ اور بھیڑئے نے مل کر شکار کرنے کا پلان بنایا۔ طے ہوا کہ سب جانور مل کر شکار کریں گے اور جو شکار ملے گا اس کو چار حصوں میں بانٹ لیں گے۔ چاروں جانور دریا کے ساتھ والے جنگل میں شکار کرنے چلے گئے۔ ایک نیل گائے جنگل میں ان کو مل گئی اور ان چاروں نے مل کر اس کا شکار کر لیا۔ جب نیل گائے کا گوشت چار حصوں میں تقسیم ہو گیا تو شیر نے ایک حصہ اٹھایا اور اپنے قابو میں کرلیا اور کہنے لگا کہ یہ چوتھا حصہ میرا ہے اس شرط کے مطابق جو ہم چاروں میں طے ہوئی تھی۔ یہ کہہ کر شیر نے ایک اور حصہ اپنے قابو میں کرلیا کہ میں جنگل کا باشاہ ہوں جنگل میں جو بھی شکار ہوگا اس کے چوتھے حصہ پر میرا حق ہے۔ ریچھ ، چیتا اور بھیڑئے نے شیر کو دیکھا کہ وہ کس طرح زیادتی کر رہا ہے۔ اس کے بعد شیر نے نیل گائے کا جگر اور دل اٹھا لیا اور کہنے لگا کہ جگر اور دل میری پسندیدہ غذا ہے میں اس سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ اب صرف ایک حصہ باقی رہ گیا تھا شیر کہنے لگا اب ایک حصہ ہے اور میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس حصے کو کس طرح تم میں تقسیم کروں۔ یہ کہہ کر اس نے چوتھا حصہ بھی خود کھا لیا۔ اخلاقی سبق: کبھی طاقتور کے ساتھ ملکر کاروبار ناں کرو۔ اسکے اپنے باٹ ہوتے ہیں جس سے وہ منافع تقسیم کرتا ہے۔ کہانی نمبر:3 گدھا، کسان اور کتا ایک کسان نے ایک گدھا پال رکھا تھا جس پر وہ مویشیوں کا چارہ ڈھوتا تھا۔ کسان کے پاس ایک کتیا بھی تھی۔ کتیا نے چار بچے دیئے۔جب بچے بڑے ہوئے تو کسان نے ان کو دودھ اور روٹی ڈالنا شروع کر دی۔ اب یہ پلے کسان کے ساتھ کھیلتے تھے اور اٹکھیلیاں کرتے تھے۔کسان ان پلوں کے ساتھ بہت خوش رہتا تھا۔ گدھے نے جب یہ دیکھا تو سوچا میں سارا دن کام کرتا ہوں میرا مالک مجھے اتنا لاڈ پیار نہیں کرتا جتنا ان پلوں سے کر تا ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ بھی اچھل کود کرے گا۔ اس سے دولتیاں جھاڑنا شروع کر دی۔ پہلے کسان نے سوچا کہ شاید مکھیاں گدھے کو تنگ کر رہی ہیں۔ جب کسان نے دیکھا کہ گدھا تو مستی میں یہ کر رہا ہے تو کسان نے ڈنڈا اٹھا لیا اور گدھے کی خوب مرمت کی۔ اخلاقی سبق: بلا سوچے سمجھے کسی کی نقل نہیں کرنی چاہئے۔ کہانی نمبر : بھیڑا اور سارس کہتے ہیں کسی جنگل میں ایک بھیڑیا رہتا تھا۔ ایک دن بھیڑئے کے گلے میں ایک ہڈی پھنس گئی۔ بھیڑئے نے بہت کوشش کی مگر ہڈی اس کے گلے سے نکل نہ سکی۔ بھیڑیا کے پاس ہی ایک سارس رہتا تھا۔ بھیڑیے نے سارس سے مدد مانگی کہ ہم ہمسائے ہیں تم میری مدد کرو تمہاری چونچ لمبی ہے اپنی چونچ ڈال کر میرے گلے سے ہڈی نکالو۔ سارس نے اپنی لمبی گردن بھیڑئے کے گلے میں ڈالی اور چونچ سے پکڑ کر ہڈی باہر نکال دی۔ کچھ دن بعد بھیڑیا شکار کاگوشت کھا رہا تھا۔ سارس بھوکا تھا اور بھیڑیئے سے کچھ گوشت مانگا۔ سارس نے بھیڑیئے کو اپنا پرانا احسان یاد کرایا کہ کس طرح اسنے بھیڑیئے کے گلے میں اٹکی ہڈی نکالی تھی۔ اور اسکی مشکل حل کی تھی۔بھیڑیئے نے سارس کو جواب دیا تم کو میرا احسان مند ہونا چاہئے کہ میں اپنے منہ میں آئی تمہاری گردان کو باہر جانے دیا ورنہ میں اپنا شکار کب چھوڑتا ہوں۔ اخلاقی سبق: کم ظرف انسان سے احسان کے بدلے میں بھلائی کی توقع کرنا حماقت ہے نوٹ- قارئین سے درخواست ہے کہ اب ان کہانیوں میں شیر، بھیڑیئے ، سارس، گدھے اور دوسرے جانوروں میں سے انسان نہ تلاش کریں۔ یہ فقط کہانیاں ہیں اور ان کہانیوں کو کہانی ہی رہنے دیں۔ باقی سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ اب الیکشن 14 مئی کو ہونگے۔