اعتماد و عدم اعتماد اور تحلیل و تنسیخ کے شوروغوغا اور یقین اور بے یقینی کے ماحول میں، مورخہ23د سمبر2022ء کو پنجاب اسمبلی میں خَاتَمُ النَّبِیّٖنﷺ یونیورسٹی بِل 2022ء کی منظوری کے بعد،گورنرپنجاب کی مہر ثبت ہوتے ہی، یہ بل، ایکٹ کے طور پر نوٹیفائی ہوچکا ہے،جو کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی خصوصی کاوش اور ذاتی دلچسپی کاثمر ہے۔اس پر یقینا سیکرٹری اوقاف میاں ابرار احمد اور ان کی پوری ٹیم کی مساعی بھی لائق تحسین ہے، کہ اہداف کی تحصیل میں وہ ہمہ وقت کمر بستہ رہے، سیکرٹری حکومت پنجاب، نبیل جاوید، جنہوں نے گزشتہ سے پیوستہ یعنی سال 2021ء کی دوسری ششماہی میں بطور سیکرٹری اوقاف پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز کو فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جس میں 21.428 کروڑ، ایس این ای کی صورت میں اس کا ابتدائی بجٹ، بلڈنگ کی تزئین و مرمت کے لیے سوا کروڑ کے فنڈز، آسامیوں کی تخلیق، رولز اور ریگولیشنز وغیرہ کی منظوری۔۔۔ اہمیت کی حامل ہیں۔ اس خاموش کارکن کی خدمات کابھی اعتراف۔۔۔ کہ ماضی قریب میں جب اس عمارت کو’’منی سول سیکرٹریٹ‘‘کے طور پر متشکل کرتے ہوئے پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی تخلیق شدہ چار نئی آسامیوں کے دفاتر کی تشکیل کے لیے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز کی مذکورہ عمارت کا انتخاب کیا گیا، مزید براں چھ دیگر محکمہ جات(محکمہ زراعت، محکمہ لیبر اینڈ ہیومن رائٹس،محکمہ انڈسٹریزاینڈ کامرس، محکمہ تعلیم سکول، محکمہ لائیو سٹاک اور محکمہ خوراک) کے دفاتر کی اس عمارت میں منتقلی، کے علاوہ اس عمارت کا ایک حصہ’’ایم پی ڈی ڈی‘‘کو دیئے جانے کی منظوری بمطابق 23 ستمبر2019ئ، عمل میں آئی، تو اس نے ایک موثر حکمت عملی سے مقتدر حلقوں کو باور کروایا کہ یہ معاملہ حساس مذہبی نوعیت کا ہے۔ پنجاب اسمبلی بذریعہ نوٹیفکیشن نمبر:پی اے پی/Legis۔2(49)/2014 ’’پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز ایکٹ‘‘کی منظوری دیتے ہوئے، ادارہ کے دائرہ کار، مقاصد اہداف اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تعین کر چکی ہے، جس کے مطابق جناب وزیر اعلیٰ پنجاب’’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘‘کے چیئرمین ہیں۔یہ عمار ت، جوکہ حضرت میاں میرؒ کے مزار کا ’’وقف‘‘اور ایک دینی تشخیص کی حامل ہے، کے مقاصد متعین شدہ ہیں۔ قرآنی علوم و معارف کی ترویج اور سیرت طیبہ ﷺ کی تحقیق و تدریس اور بین الاقوامی سطح پر اس کے ابلاغ کے لیے یہ ''سینٹر آف ایکسیلینس''کے طور پر معروف اور معتبر ہوگا،جس پر یہ سرکاری دست برد سے محفوظ ہوا۔ بہرحال۔۔۔۔ خَاتَمُ النَّبِیّیِن حضرت محمدﷺ کی رسالت پر غیر متزلزل ایمان اور آپ کی ذاتِ اقدس سے لازوال محبت و کامل اطاعت ہی ہمارے دینی تشخص، اجتماعی بقا اور مِلّی استحکام کی بنیاد ہے۔ اَز رسالت دَرجہان تکوینِ مَا/اَز رسالت دینِ مَا آئینِ مَا یعنی آپ کی رسالت ہی سے دنیا میں ہمارا وجود قائم ہے۔ آپؐ کی رسالت ہی سے ہمارا دین اور ہمارا آئین ہے۔ قوم رَا سرمایہء قّوت ازُو/حفظِ سرِّوحدتِ ملّت ازُو اسی سے قوم اور ملت کوقوت اور طاقت کی دولت میسر ہے اور یہی اُمت کی یگانگت اور استحکام کاراز ہے۔ ’’لَا نَبِیَّ بَعدِی‘‘ ز احسان خدا است/پردہء ناموس دینِ مصطفیﷺ است ’’ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا‘‘(حدیث) خدا کے احسانات میں سے ایک ہے، اور یہی دینِ مصطفیﷺ کی ناموس کا حصار اور بھرم ہے۔ اقبال ؒ نے عقیدہ ختمِ نبوت کو محض دینی اعتبار ہی سے نہیں، بلکہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے بھی از حد اہمیت کا حامل قراردیا، اگر خدا نخواستہ یہ عقیدہ کمزور پڑ جائے تو مسلمانوں کے الگ وجود کا جواز باقی رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انجمن حمایت ِ اسلام کے سالانہ اجلاس منعقدہ 22 فروری 1902ء میں اقبال ؒ بارگاہ ِ رسالتمأبﷺ میں عرض گزار ہوتے ہیں کہ یارسولﷺ! آپؐ کے بعد اگر کوئی بدبخت کسی بھی مفہوم میں نبوّت کا دعویٰ کرتا ہے، تو وہ ’’شرک فی النبوّت‘‘کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ جب آپ نے معرفت و عرفان کی شمع روشن کر کے بزمِ جہان میں روشنیاں اور اُجالے بکھیردیئے تو پھر بھلا کسی اور کی گنجائش کہاں ---اے کہ تُو بعد اَز نبوّت شُد بہر مفہوم شرک /بزم رَا روشن زنورِ شمع عرفان کردہ ای بہر حال علمی، دینی اور فکر ی سطح پر ایک ایسی دانشگاہ کی تشکیل جو بالخصوص نسلِ نو میں عقیدہ ء ختمِ نبوّتؐ کے رسوخ اور قومی و بین الاقوامی سطح پر اس کے موثر ابلاغ کا ذریعہ ہو، واقعتا ایک تاریخ ساز کام ہے۔ سرکاری سیکٹر میں چونکہ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر سوچنے اور کام کرنے کی زیادہ آزادی نہیں ہوتی۔ بنابریں کسی علمی و فکری ادارے کی تشکیل و ترتیب اور پھر اس کی نمو(Growth)قدرے مشکل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ دودہائیوں میں حضرت میاں میرؒ کے مزار سے ملحق، اپر مال روڈ، لاہور پر واقع اس چَوّن کنال اراضی پر، جو بھی تجربات ہوئے، وہ اپنی افزائش اور ادارہ سازی کے حوالے سے سُست روی کا شکار رہے۔ اس کے پسِ پردہ محرکات و عوامل بہت سے ہوسکتے ہیں، لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ بالخصوص گورنمنٹ سیکٹر میں ''Institulization''ایک مشکل ہے اور پھر جب ادارہ دینی نوعیت کا ہو تو یہ مشکل اور بھی بڑ جاتی ہے۔ اس کے لیے جو سپرٹ، جذبہ اوروابستگی درکار ہے، وہ بعض اوقات سرکاری دفتروں میں دستیاب نہیں ہوپاتی اور پھر آنکھ چھپکتے ہی شوقِ منزل غباروں میں کھوجاتا ہے۔ منسوخ شدہ، ''Repealed'' پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز (PIQSS) کے اوّلین وائس چیئرمین۔II،جسٹس(ریٹائرڈ) ڈاکٹر خلیل الرحمن خاں، اس ادارے اور عمارت کی آبادکاری اور بالخصوص پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز ایکٹ 2014ء کی تشکیل و ترتیب کے لیے کوشاں رہے اور ماہر ین پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ نوٹیفائی ہوا، ابتداً یہاں چار فیکلٹیز کا قیام منظور ہوا، جس میں فیکلٹی آف تجویدُ القرآن، فیکلٹی آف قرآنک سٹڈیز، فیکلٹی آف سیرت سٹڈیز، ریسرچ،ٹریننگ اینڈ پبلیکیشنزونگ خصوصی طور پر اہم ہیں۔ ماہرین کا خیال تھا کہ قرآنی افکار کی ترویج اور سیرت طیبہؐ کے فروغ میں یہ ادارہ بین الاقومی سطح پر اہمیت کا حامل ہوگا۔ جس کی حقیقی پہچان تحقیق و تخصص اور بالخصوص انٹر نیشنل لیول پر قرآن اور صاحبِ قرآن کے حوالے سے پیدا کردہ اشکالات و اعتراضات کا جواب ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ محض عربی، اسلامیات میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی، جو کہ صرف لاہور ہی میں درجن بھر سے زائد مقامات پر پہلے ہی جاری ہے، کے ماڈل کو اپنا کر، محض خانہ پُری کے طور پر ایک اور ادارہ قائم کردینا، کوئی خدمت نہ ہے۔ بہر حال!وہ ایک مصرع اکثر پڑھا کرتے تھے: ’’بستی بسنا کھیل نہیں ہے،بستے بستے بستی ہے۔‘‘ اقبال ؒنے بھی کہا تھا: جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا