دیکھنے میں آیا ہے کہ جاپان میں مغربی جمہوریت جبکہ چین میں یک جماعتی نظام اور سنگا پور میں فردِ واحد کی حکومت ہونے کے باوجود اِن سب ممالک نے حیران کُن حد تک ترقی کی ہے۔اس کے برعکس بے شمار جمہوری ممالک ہیں ، جہاں جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے ۔بیسویں صدی میں اس امر سے قطع نظر کہ کس ملک میں کونسا طرزِ حکومت رائج رہا ہو، یہ طے ہو چکاہے کہ وہی قومیں دنیا پر حکمرانی کریں گی جہاں محدود Elitist گروہوں کے مفادات کی نگہبانی کرنے والانظام نہیں بلکہ مضبوط اوروسیع البنیاد Inclusive) )قومی ادارے کار فرما ہوں گے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریتیں آخر کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں نہیں پنپ سکی؟ ہمارے ہاںقومی ادارے اپنے قدموں پر کھڑے کیوں نہیں ہو سکے؟ امریکی سکالرز،سٹیون لیوٹسکی اور ڈینیئل زیبلاٹ کی ’ جمہوریتیں کیسے مرتی ہیں؟‘ نامی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی جمہوری ریاست میں جمہوریت کے خاتمے کے لئے کسی فوجی آمر کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹا جانا ضروری نہیں کہ ایسا عموماََ سرد جنگ کے دور میں ہوتا تھا ۔ دورِ حاضر میں دیکھا گیا ہے کہ جمہوری طور پر منتخب سویلین حکمران اپنے ملکوں میں خود جمہوریت کے خاتمے کا باعث بنتے ہیں۔تاہم ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب وہ انہی جمہوری راستوں کو مسدود کر دیتے ہیں جن سے وہ خود منتخب ہو کر اقتدار میں آئے تھے۔ مصنفین کے مطابق سویلینز کے ہاتھوں جمہوریت اس وقت مرتی ہے جب جمہوری نظام کے اندر سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ دشمنوں کا سا سلوک کرنے لگتے ہیں اوراپنے سیاسی حریفوں کو کچلنے کے لئے ہر غیر اخلاقی اور غیر جمہوری حربے کا استعمال جائز سمجھنے لگتے ہیں۔کتاب میں بتایا گیا ہے کہ فوجی ہو یا سویلین ، آمرانہ (Autocratic) مزاج رکھنے والے تمام حکمرانوںکے مخالفین کو کچلنے کی کاروائیوں میں غیر معمولی مشابہت پائی جاتی ہے۔چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی آمر کی طرف سے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلی کوشش ’ریفری کو قابو کرنا ‘ ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں عدلیہ کسی بھی فوجی یا سویلین آمر کا پہلا نشانہ بنتی ہے۔تقسیم، دبائو حتی کہ متشدد ہتھکنڈوں کے ذریعے قابو میں لاتے ہوئے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو ختم کرنا مقصود ہو تا ہے۔اس باب میں عدلیہ کے ساتھ ہی ملکی سلامتی اورخفیہ اداروں کو قابو میں لائے جانے کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ان قومی اداروں کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کی باری آتی ہے۔ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے حکمران صرف اداروں کو ہی نہیں بلکہ آئین کو بھی پسِ پشت ڈالنے سے نہیں کتراتے۔کتاب میںشامل ایک ٹیبل میں آمرانہ مزاج رکھنے والے حکمرانوں کی چار نشانیوں کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔ان نشانیوں میں آئین کی پامالی ، عام انتخابات کو پسِ پشت یا التواء میں ڈالے جانے کی روش، شخصی آزادیوں کو کچلنے اور مخالف سیاست دانوں کو غیر ملکی ایجنٹ، ملک دشمن اور غدار کہہ کر پکارا جانا شامل ہے۔ ’ریفری کی تبدیلی‘ یعنی اداروں کی تباہی کے بعد دوسرا مرحلہ ’ کھلاڑیوں سے میدان خالی کرنا ‘ ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں سیاسی مخالفین کو عدالتوں سے نا اہلی، قید وبند،جبر ، لالچ اور بلیک میلنگ حتی کہ پر تشدد کاروائیوں کے ذریعے منظر نامے سے ہٹانا مقصود ہوتا ہے۔ تیسرے اور حتمی مرحلے میں غیر موثرکر دیئے جانے اداروں کے ذریعے ’کھیل کے قوانین ‘ کو نئے سرے سے لکھا جاتا ہے۔ انتخابات، انسانی حقوق، معاشیات اور احتساب جیسے اہم معاملات پر پارلیمنٹ حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق قانون سازی کرتی ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے حکمران گروہ کے مطیع، عوامی جواب دہی سے لا تعلق اورخود سر ہوجاتے ہیں۔جبکہ عدلیہ خاموشی سے بیٹھی سب تماشا دیکھتی ہے۔کتاب کے مصنفین کا خیال ہے کہ عام تصور کے برعکس، آئین کے دفاع کی ذمہ داری صرف عدلیہ کی نہیں ، بلکہ سیاسی جماعتوں اور منظم شہری گروہوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔اعلیٰ آئینی عہدوںکے لئے امیدواروں کا درست انتخاب اور ان کی نگرانی سیاسی جماعتوں کا اہم فریضہ ہے۔امریکی سیاست کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ ایک دولت مند کاروباری شخص کی حیثیت سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے ’اجنبی‘ تھے۔ تاہم دونوں سیاسی جماعتیں آمرانہ روش کے حامل شخص کا راستہ اس کی دولت کی بناء پر روکنے میں ناکام رہیں۔کتاب میںجائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح بعد ازاں صدر ٹرمپ نے آئینی ادا روں کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے استعما ل کیا۔ سپریم کورٹ کے چند ججوں پرکڑی تنقید اورججوں کی تعداد کو گھٹانے بڑھا نے سمیتCourt Packing جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے عدلیہ کو دبائو میں لانے کے لئے مسلسل مہم جوئی کی گئی۔نا موافق میڈیا ہائوسز کو دھونس دھمکیوں سے خاموش جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کوقوانین میں ردو بدل سمیت دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنا طرفدار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ ہیلری کلنٹن سمیت سیاسی حریفوں کی خفیہ نگرانی کی گئی۔ اسی کتا ب میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ریاست میں جمہوریت کے پنپنے کے لئے سیاست دانوں کے مابین باہمی برداشت Mutual Toleration)) جبکہ ادارہ جاتی تحمل(Institutional Forebearance) پر مبنی رویوں کا ہونا لازم ہے۔جمہوری طرزِ حکومت دراصل’ چیک اور بیلنس‘کا نظام ہے۔اس نظام میںافراد نہیں بلکہ آئینی اداروں کو اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔تاہم جہاں کسی کامیاب جمہوریت کے اندرآزاد اور خود مختار آئینی اداروں کی موجودگی لازم ہے، وہیں اداروں کو تفویض کی گئی آزادی، خودمختاری اور طاقت ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے کے لئے نہیں ہوتی۔چنانچہ کسی بھی ریاست میں جمہوری نظام کی بقاء سیاست دانوں کے مابین باہم برداشت اور ادارہ جاتی تحمل پر مبنی جمہوری رویوں میں ہی پنہاں ہے۔ از کارِ رفتہ سپاہی گزرے برسوں تکرار کے ساتھ لکھ رہا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل طاقتور ادارے کو کمزور کرنے میں نہیں ، سویلین آئینی اداروں کو مضبوط بنانے میں پنہاں ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ سویلین آئینی اداروں کے مابین ایک دوسرے کو گرانے کی موجودہ روش کیا ان اداروں کو مضبوط بنائے گی یا انہیں مزید کمزور کرے گی؟ سپریم کورٹ کی تقسیم کی مسلسل کوششیں ، حکومت کی جانب سے اس کے احکامات کی حکم عدولی ، ایک اہم پارلیمانی کمیٹی کے متنازعہ سربراہ کی جانب سے اچانک ججوں کی تنخواہوں اور مراعات پر واویلہ اور رجسٹرار کی طلبی، جبکہ پارلیمنٹ کی جانب سے چیف جسٹس کو بظاہر رگیدنے کیلئے ہائوس میں طلب کئے جانے جیسی دھمکیوں سے کیا عدلیہ کا ادارہ مضبوط ہو گا یا دائمی طور پر کمزور؟ ایک پارلیمنٹ جو اپنا آدھا حصہ کاٹ کر پھینک چکی ہو، جو اسی راستے کو مسدود کر دئیے جانے کیلئے استعمال ہورہی ہو کہ جس سے اس کا اپنا وجود عمل میں آیا ہو، کیامحض لمبی بے تکان تقریروں اور جارحانہ قرادادوں کے ذریعے اُس کی بالا دستی ممکن ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا بر وقت، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے بغیر کسی جمہوریت کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟