لکھنو کی تہذیبی تمثال گیتی ابرار کا تعلق لکھنو سے تھا ،بقول ڈاکٹر انوار احمد کے وہ علی عباس حسینی کی صاحب ذوق صاحبزادی تھی۔وہ خود لکھتیں تو نہیں تھیں مگر صاحب مطالعہ تھیں ۔ اچھا شعر ان کے دل میں اتر جاتا ۔عمدہ نثر پڑھنے کی شائق تھیں۔عرصہ پہلے انہوں نے اپنے والد عباس حسینی کا افسانوں کا مجموعہ بھی مجھے بھیجا اور اس پر لکھا پیاری بھانجی سعدیہ قریشی کے لیے۔میں انہی آپا کہتی تو فوراً مجھے ٹوکتیں’’ارے آپ مجھے خالہ کہیں میں آپ کی خالہ ہوں اور آپ میری بھانجی ہیں۔ میں تو اللہ کا شکر کرتی ہوں مجھے اتنی پیاری بھانجی اللہ نے دی ہے۔"میرے اور ان کے درمیان عمروں کا بہت فرق تھا مگر اس کے باوجود۔کچھ موضوعات ایسے تھے کہ جن پر دیرتک گفتگو ہوتی۔میرے کسی تازہ کالم ہی کی تعریف کرتی پھر حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے لگتیں۔ فون پر طویل گفتگو سے مجھے گریز رہتا ہے لیکن ان سے جب فون پر بات ہوتی وہ زیادہ دیر بات کرنے کی خواہاں رہتیں۔ میں بات کرتے کرتے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلنا شروع کر دیتی ہوں مجھے کہتی ہیں کہ تم واک کر رہی ہو۔وہ بہت ہنستی اور کہتی ہیں اچھا تو میری بھانجی کو اپنے وقت کے استعمال کا بہتر ین طریقہ آتا ہے۔ گیتی خالہ محبت سے چھلکتا ہوا برتن تھیں اور پھر جو بھی ان کے قریب ہوتا وہ بے لوث محبت میں بھیگتا اور دامن میں دعائیں سمیٹتا۔وہ ایسی ہی تھیں فکر کرنے والی دعا دینے والی ۔کہا کرتیں کہ ہمیں تو رب نے دل مبتلاعطا کیا ہے ،جو تعلق اور محبت کا بوجھ اٹھانے میں خوش رہتا ہے اور اجنبیوں کی تکلیف پر بھی انسانیت کے ناطے تڑپ اٹھتا ہے۔وہ قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا تھیں عمر کے ساتھ جن کی شدت بڑھ رہی تھی۔ تکلیف کی طوالت اور تنہائی کے تھپیڑے سہنے کے باوجود ان کی خوش مزاجی اور محبت میں کمی نہ آتی یہ بات مجھے حیرت میں مبتلا کر دیتی۔ گیتی خالہ سے تعلق فیس بک پر بنا۔ میں نے افتخار عارف صاحب کے حوالے سے ایک کالم لکھا جس پر انہوں نے بہت والہانہ انداز میں اس کالم کو سراہا۔ان کے خاندان کا افتخار عارف صاحب سے قدیم تعلق تھا۔ایک تو لکھنؤ سے تعلق کا رشتہ، دوسرا لکھنؤ یونیورسٹی میں افتخار عارف صاحب کی ہم جماعت بھی رہیں۔ان کے شوہر اور دیور بھی افتخار عارف صاحب کے اسی دور کے احباب تھے۔ان کے ممتاز ادیب علی عباس حسینی ان کے والد لکھنو کے بوائز کالج کے پرنسپل رہے۔ طویل دورانیے کے باہمی احترام کے تعلق پر بے تکلف دوستی کا عکس بھی پڑتا کبھی وہ افتخار عارف صاحب کو شاعر اعظم بھی کہا کرتیں۔ گیتی ابرار زندگی سے بھرپور تھیں۔گونا گوں بیماریوں کی طوالتکے باوجود ان کے اندر زندگی سے خوشی کشید کرنے کی ایک امید اور سر شاری موجود تھی ،خوبصورتی کو سراہنے کا سلیقہ آخری عمر تک برقرار رہا۔زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سہنے کے بعد آخری عمروں میں خوش مزاجی کا عنصر کم ہوتے ہوتے چڑ بڑے پن سے جاملتا ہے مگر محبت نے انہیں خوش مزاج ہی رکھا۔مجھے ان سے بات کر کے محسوس ہوتا کہ وہ بنیادی طور پر تنہائی کا شکار ہیں ۔بطور کالج پرفیسر ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی طور پر بھرپور زندگی کا یہ دروازہ بھی بند ہوگیا جہاں وہ روز بیسیوں طالبات سے ملا کرتی تھیں۔ بیٹی شادی کے بعد لندن میں مقیم تھیں اور بیٹا اپنے خاندان کے ساتھ الگ رہتا۔وہ اور ان کے شوہردونوں گھرمیں تنہا رہ گئے۔وہ ایسے بزرگ مرد اور خواتین کی نمائندگی کرتی تھی جو بچوں کے عملی زندگی میں سیٹ ہونے کے بعد زندگی کی شام میں خوفناک تنہائی سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ان معاملات میں مرد حضرات قدرے بہتر زندگی گزار لیتے ہیں۔ ان میں حساسیت کی سطح وہ نہیں ہوتی جو خواتین کا خاصا ہے۔پھر گھر سے باہر آتے جاتے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، تنہائی کی دبیز تہہ میں ایک دراڑ پڑتی رہتی ہے۔ تو ان کی تنہائی کی گھمبیر تا وہ نہیں ہوتی جو خواتین کی ہوتی ہے۔اگرچہ وہ بھی اپنی زندگی میںبہت مصروف رہیں ادبی اور سماجی تقریبات میں باقاعدگی سے جاتیں ، لیکن گھرکی تنہائی سے دور بھاگ کر سماجی تقریبات کے ہجوم میں دل بہلانے کی کوشش،بسا اوقات گھر واپس آنے کے بعد زیادہ بڑی تنہائی سے دوچار کرتی ہے۔بیٹی کرن لندن میں رہائش پذیر تھی۔ بیٹیاں دور رہ کے بھی محبت کرنے کا سلیقہ جانتی ہیں وہ دور رہ کے قریب رہنے کی کوشش کرتی ۔ہرشام کی ویڈیو کال، ہر چیز کی خبر گیری۔ مگر یہ سب کچھ اس سکون کا نعم البدل نہ بن سکا جو بچوں اور ان کے بچوں کے قریب رہنے سے ملتا ہے۔لندن سے واپس آ نے کے بعد وہ زیادہ بیمار ہو گئیں۔ان دنوں وہ اپنی بیماری کے بہت تکلیف دے ایام گزار رہی تھیں۔وہاں اپنی بیٹی اور نواسوں ساتھ بھرپور وقت گزار کر آئیں تو تنہائی کا احساس دو چند ہوگیا اور سارا وقت وہ اپنا شام ٹیلی فون پر گزار دیتی تھی۔ان کی وفات سے شاید دو ہفتے قبل ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو جواب نہیں آیا۔ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ میں کوئی وائس میسج چھوڑ دیتی تو اس کا وہ جواب نہ دیتیں اس بار لیکن طویل وقفہ آیا اور پھر ایک دن فیس بک کے دیوار پر گیتی خالہ کے رخصت ہو جانے کی خبر تھی۔ ان کے مرنے کی خبر سن کر یکا یک میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ایسے لگا کہ کوئی بہت پیار کرنے والا اپنا رخصت ہوگیا ہے۔۔مگر اس خیال نے دل کو تقویت دی کہ وہ بیماری، تنہائی، تکلیف اور درد کے طویل سفر کے بعد اب رحمتوں کی آرام دہ چھاؤں میں سستا رہی ہیں۔انہوں نے اپنی بے غرض محبت سے جن دلوں کو روشن کیا وہ انہیں کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔ ٭٭٭٭