ازمنہ قدیم سے ہجرت کر کے آنے والے قافلوں نے کنارِ دریا ڈیرے ڈالے کہ پانی ’’آب حیات‘‘ ہے، انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زیر کاشت لانے کی تشکیل ہوئی۔ جس کے خالق بلا شبہ نابغۂ روزگار تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ روئے زمین پر کم خطے وادیٔ سندھ ایسے بار آور ہونگے جہاں معاون دریائوں کا مہتمم بالشان جال بچھا ہو اور ان دریائوں پر بیراج بنانا‘ پشتے باندھنا یا ان کا رخ بدلنا ممکن ہو۔ راوی اور چناب کا درمیانی علاقہ رچنا دوآب کہلایا،جس کے زیریںِ حصے میں لائل پور اور متصل اضلاع کا کچھ رقبہ شامل تھا۔ جھاڑ جھنکار کی یہ زمین ایک مدت سے ویران پڑی تھی‘ اس وسیع و عریض خرابے پر دہشت زدہ ٹیلے تھے‘ بارش کی قلت‘ زیر زمین پانی کی گہرائی سے کاشتکاری ناممکن تھی کبھی بارش کا چھینٹا پڑتا تو روئیدگی کی جھلک نظر آتی‘ ٹبے اور دکھ انسانی کاوش کے منتظر تھے۔ انگریز حکومت کی دور اندیشی اور منصوبہ بندی نے چناب کی بپھری ہوئی لہروں کو رام کیا اور ساندل بار کی کایا پلٹ دی۔ نہری انجینئروں کی فنی مہارت‘ انتھک محنت رنگ لائی‘ مستعد انتظامیہ اور مال کے کارکنوں کی لگن سے یہ منصوبہ پروان چڑھا‘ چلچلاتی دھوپ میں سنو لائے ہوئے چہرے اور ہانپتے ہوئے کف در دھان گھوڑے ان کی سخت کوشی پر دال تھے۔ منصوبے کی تکمیل میں ان ہزارہا محنت کشوں کا خون پسینہ بھی شامل تھا، جو قلیل معاوضے کے عوض عناصر سے نبرد آزما رہے‘ ان سوختہ سامانوں کا کیا ذکر جو نوکری ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ڈھے گئے ’’خون خاک نشیناں رزقِ خاک ہوا‘ انہار کالونی وجود میں آئی اور آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ وسطی اور مشرقی پنجاب کے دیہات سے مسلمان اور سکھ کاشتکاروں نے قسمت آزمائی کے لئے بار کا رخ کیا۔ خود ان کے زمینیں بٹتے بٹتے کفالت کی حد کھو چکی تھی۔ قدیم معاشرے اور طبقاتی قیود میں جکڑے ہوئے تنگ دست کسان نے کھلی فضا میں سانس لیا، سینکڑوں میل کی مسافت طے کرتی ہوئیں گاہے مڑتی ‘ گاہے بل کھائی ہوئیں‘ پانی سے لبا لب بھری نہریں نظر زا ہوئیں‘جب آبِ رواں اٹھکیلیاں کرنے لگا‘ ہالیوں نے ہل تھام لئے خود کاشت کرنے والے پہلی مرتبہ مزروعہ زمین اور مال مویشی کے مالک بنے‘ صدیوں سے غیر آباد بانجھ زمین قابل کاشت ہوئی قلیل عرصے میں سرسز فصلیں لہلانے لگیں۔ ہرے بھرے باغات بار آور ہوئے حضرت انسان نے بار بار فطرت کا چہرہ مسخ کیا مگر خالق کائنات کے حضور اس کا اِدّعا بے جا نہیں تھا: بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم زرعی انقلاب کے اس رستا خیز میں بے مہر موسم سے جھلسے ہوئے قدیم قبائل نظر انداز ہو گئے۔ لڑنا بھڑنا‘ ان کا محبوب مشغلہ تھا‘ بعض قبائل چوری چکاری اور رہزنی کو بہادری سے منسوب کرتے تھے۔ بابر کی دست برد سے محفوظ و مامون صدیوں سے بسنے والے ‘جانگلی ‘ بار میں آزادانہ گھومتے تھے۔ کاشت تو تھی نہیں‘ یہ لوگ گندم اور مکئی سے ناآشنا تھے۔ ان کی سادہ خوراک پیلو اور سنگری کے شگوفوں پر مشتمل تھی جو دودھ میں بھگو کر کھا لیتے‘ انہیں اغیار کی یلغار کب گوارا تھی۔ حکام کو بھی خیال نہیں آیا کہ پرانے باسی اپنی زمین سے جبراً بے دخل کئے جا رہے ہیں۔ ان کے ڈھور ڈنگر کے لئے گھاس کے میدان تھے نہ چراگاہیں۔ وہ خانماں برباد خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئے: ورق پر ورق ہر سوئی بردباد غم و غصے سے بھرپور سینوں میں انتقام کا جذبہ جاگ اٹھا۔ پرانی تند خوئی عود کر آئی۔ آباد کاروں اور نظام کے ان کے شب خوں کی زد میں تھے۔وہ غیر متوقع گوشوں سے حملہ آور ہوتے اور ٹیلوں‘ ٹبوں کی اوٹ میں پناہ لیتے یا خود رو جنگل میں روپوش ہو جاتے۔حملوں کی وجہ سے کام میں رکاوٹ پڑنے لگی۔ یہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف کھلی بغاوت تھی۔ آباد کاروں کی پہلی کھیپ کے لئے سڑک تھی نہ ریلی انہیں موسم کی شدت اور دشوار گزار راستوں سے پالا پڑا۔ جنگلی جانور اور حشریات الارض جان کے درپے ہوئے۔ ایسے بھی تھے جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ کالونی تک نہ پہنچ سکے‘ مجبوراً خانہ بدوش قبائل کو رقبہ الاٹ کیا گیا۔ یہاں بھی قدیم باسی نصف مربع کا حق دار ٹھہرا جبکہ خواص مراعات سے بہرہ مند ہوئے۔سرکار کو زمین اور آبپاشی کی ملکیت حاصل تھی۔ اپنے چہیتوں کو نوازنے کے لئے حکام کے پاس منفعت بخش ذرائع موجود تھے۔ حکومت کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ مالیہ تھا۔ جاگیرداروں اور کاشتکاروں کی نئی جماعت سرکار انگلشیۂ کے ساتھ وفاداری کی ضامن تھی۔ سربرآوردہ زعما نے زمین کوڑیوں کے مول خریدی۔ سرگودھا میں نون اور ٹوانہ خانوادے اکیس ہزار ایکڑ کے مالک بن بیٹھے۔ نجی انہار کے ذریعے آبپاشی پر بھی ان کا تصرف تھا۔ ضرورت مند کسان ان سے پانی خریدتے تھے۔ یوں ایک وسیع رقبہ ان کا دست نگر تھا۔ کالونی اراضی کے طفیل دیہی معاشرے پر ذی ثروت طبقے کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ زرعی ترقی کے لئے ان کے پاس کافی وسائل تھے مگر بیشتر نے شہروں میں رہائش اختیار کر لی اور جاگیر کا انتظام کارندوں کے سپرد کر دیا۔ جنہیں نئی اقسام کے بیج متعارف کر کے پیداوار بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا افسوسناک نتیجہ تھا کہ روپے کی ریل پیل کے باوجود جاپان اور یورپی ممالک کے علی الزعم معاشرہ قدامت پسند فیوڈل نظام کا غلام بن کے رہ گیا۔سچ پوچھئے تو آج بھی مراحمِ خسروانہ کے انداز ایسے مختلف نہیں۔ شہروں میں پلاٹوں کی بندر بانٹ اور ترقیاتی فنڈز کی آڑ میں صوبائی اور وفاقی نمائندگان کو کروڑوں کا عطیہ اسی روایت کی توسیع ہے۔ لائل پور شہر میں ریل بازار کے باہر مخروطی ’’گمٹی‘‘ کی شکل میں ایک میموریل ہے۔ جس پر ابھرواں حروف میں ’’برکت دریائے چناں دی‘‘ کندہ ہے۔ ضلع کی خوشحالی دریائے چناب کی مرہونِ منت ہے، بچپن سے سنتے آئے کہ گھنٹہ گھر کی تعمیر سے پہلے وہاں ایک کنواں تھا۔ اس وقت یہ بات ناقابل یقین لگتی تھی مگر یہ روایت صداقت پر مبنی تھی۔ کنواں پاٹ کرسنگِ سرخ سے ایک دیدہ زیب ہشت پلہ گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا، جو شہر کی شناخت ٹھہرا۔شہر کے گردو پیش ’’راجباہوں‘‘ کی فراوانی ہے۔ مصفا آب رواں باغیچوں کو سیراب کرتا ہوا‘ زراعتی کالج کا رقبہ سرسبز بناتا ہوا نامعلوم منزلوں کی طرف رواں دواں ہے۔ صدی کے آغاز میں یہ سب کہاں تھا۔ کچھ بھی تو نہیں تھا۔ برطانوی قلمرو میں شامل شہروں میں کسی ایک شہر کو صحت و صفائی کا اعلیٰ معیار قائم رکھنے پر The Clean Cityکا اعزاز دیا جاتا تھا۔1920ء میں یہ اعزاز لائل پور کو حاصل ہوا تھا۔شہر کا نقش یونین جیک Patternپر تیار کیا گیا تھا۔ وسط میں گھنٹہ گھر سر اٹھائے کھڑا ہے۔جہاں سے آٹھ بازار پھوٹتے ہیں گھنٹہ گھر کو مرکز مان کر بازاروں کو وسط سے قطع کرتی ہوئی حدود سڑک ہے خلا میں رہائشی بستیاں بسا دی گئی ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر جیمز براڈوڈ‘ لائل پور کالونی کے مرحلہ وار ارتقاء سے وابستہ رہا تھا ضلع کا نام اس سے منسوب ہے جن انگریزوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈالی۔ خون پسینے سے اس ویرانے کو آباد کیا وہ بے نام رہے۔ ہم کہاں کے دانا تھے… از شیخ منظور الٰہی