عربی زبان و اَدب کے عظیم استاذ، اسلامی علوم و معارف کی بلند پایہ شخصیت، نامور ماہر تعلیم استاذِکبیر حضرت ڈاکٹر ظہور احمد اظہر گزشتہ روز دنیا سے رخصت ہوگئے، ڈاکٹرراغب حسین نعیمی کی اقتداء میں جنازہ کی اختتامی دعا ھوئی۔ نعیمی خاندان کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا دیرینہ تعلق تھا ، ڈاکٹر سرفراز حسین نعیمی شہید اور ڈاکٹر محفوظ الرحمن نعیمی مرحوم عمر بھی استاذ ِکبیر کے نیاز مند رہے۔ ڈاکٹرصاحب 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ،معمرقذافی کی عربی تقریر کے رواں اردو ترجمے سے شہرت پذیرہوئے اور گذشتہ نصف صدی میں انکے پائے اورٹکرکی کوئی شخصیت انکے شعبے میں منصہ شہود پہ نہ آسکی۔ انکو دنیائے اسلام کی عظیم و قدیم دانشگاہ جامعہ الازھرمصرمیں حصول علم کی حسرت رہی ، لیکن قدرت نے انکو وہ علمی سطوت اوروجاہت بخشی جسکے سبب الازھر کے شیوخ بھی انکے آگے اپنی گردنیں خم کرلیتے۔ڈاکٹرصاحب نے جامعہ الازھر کامستقل فیکلٹی ممبربننے کی بجائے، اسمیں وزیٹنگ استاد کے طور شامل ہونے پرہی اکتفا اوراپنے ملک میں رہ کرہی تشنگان علم کی آبیاری کوترجیح دی۔آپ ، پنجاب یونیورسٹی میں بطور صدرشعبہ عربی، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اوریئنٹل لرننگزاورڈائریکٹرشیخ زیداسلامک سنٹرکے طورپرگراں قدرخدمات کے حامل رہے ،ہجویری چیئرکے مسند نشین ہونے کے ناطے انہوں نے گراں قدر تصنیفات کااہتمام کیا۔پنجاب یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد،دی فیصل آباد یونیورسٹی میں جب انکی خدمات مطلوب ہوئیں توڈاکٹراسحاق قریشی صاحب کے ہمراہ،ڈاکٹرصاحب کی نئی رہائشگاہ 7۔حق باہو ہووسز،جوڈیشل کالونی میں نشست براری ہوئی اور آپکو فیصل آباد کیلئے آمادہ کیا گیا۔فیصل آباد کے قیام کے دوران انہوں نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خانوادے کے حوالے سے گراں تحقیقات وتصنیفات کااہتمام کیا۔ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر ایک ایسے جینوئن استاد تھے، جنہوں نے اپنے شاگردوں کو اپنے بچوں کی طرح پالا، ان کے شاگردوں کی تعداد یقینا ہزاروں میں ہوگی، لیکن ایسے ریسرچ سکالرز بھی سینکڑوں میں ہیں، جنہوں نے حضرت استاذِ کبیر کے زیر سایہ ڈاکٹریٹ کی منزل سَر کی، جن میں راقم بھی اس اعزاز سے محض انہی کی بدولت سرفراز ہوا۔ ویسے اس صف میں ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، ڈاکٹرسرفرازنعیمی ،ڈاکٹر سیّد عبد القادر آزاد، جیسے نامورشامل ہیں۔ مجھے پنجاب یونیورسٹی میں بارہ سال گزار نے کا موقع میسر آیا، جس میں کم وبیش دس سال حضرت استاذِ کبیر کے زیر سایہ بسر ہوئے، گریجویشن کے بعد 1986ء میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1988 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر مکمل ہونے پر یونیورسٹی سے رخصتی لازم تھی، ماسٹرکلاسز میں داخلہ صرف فریش گریجوایٹ کو ملتا تھا، بنا بریں معمول میں کسی اور مضمون میں ایڈمشن ممکن نہ تھا۔ تاہم پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت ہر ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایک سیٹ سپورٹس اور ڈبیٹس(Depates)کے حوالے سے مختص تھی، جس میں یونیورسٹی ہاکی ٹیم کے کپتا ن کے طور پر داخلہ کا امکان موجود تھا، جس کے لیے محض ہسڑی اور عربی کے شعبہ جات دستیاب تھے۔ ہماری کلاس ایم اے اسلامیات فائنل انگزیم کے بعد یونیورسٹی کے شمالی علاقہ جات کے ٹوئر پہ روانہ ہوگئی، جو کہ دس روز پہ محیط تھا، واپس آئے تو ایم اے ہسٹری کے داخلے کے لیے انٹرویو کی تاریخ گزر چکی تھی، شعبہ عربی کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھی۔ جہاں ایک حادثے کے نتیجہ میں استاذِ کبیر کی نیاز مندی میسر آئی، جو زندگی بھر برقرار رہی، جس میں استاد جی کی شفقت اور محبت کا بڑا دخل تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایم اے عربی کے طلبہ اپنے اساتذہ، جس میں حضرت استاد جی بھی شامل تھے، کی سرکردگی میں ایک مطالعاتی دورے پہ روانہ ہونے کے لیے یونیورسٹی بس کے ذریعے چلنے کو تیار تھے کہ ایک طلبہ تنظیم کے قائد بس میں داخل ہوئے اور کچھ ہدایات دینے کے بعد اپنے علاقہ ناظم کی طرف اشارہ کر کے فرما نے لگے کہ اس سفرمیں یہ آپ کے ذمہ دار کے طورپر ساتھ ہوںگے۔ آپ کو کوئی مسئلہ یا دقت ہوتو، ان سے رابطہ کریں۔ میں نے ناظم صاحب کو ٹوک دیا --- کہ ہم یہ سفر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی قیادت میں کر رہے ہیں، ان کی موجودگی میں کسی اور کی لیڈرشپ قبول نہیں، تنظیمی قائد میر ی اس جسارت سے ذرا چھینپ کر، اپنی ڈیوٹی پوری کر کے بس سے اْتر گئے، اس دور کے لوگ ایسی جرات کے مضمرات کو جانتے تھے، سو ایسے ہی خدشات مجھے درپیش ہوگئے، مگر الحمدللہ ،اللہ نے حفاظت فرمائی ، یہ سب محض عقیدت اور نیازمندی کی بناپر برجستہ اور ارتجالاً ہوا، اور گزر گیا، مگر حضرت استاد جی کے قلب و نظر میں ٹھہر گیا، وہ سب سے اگلی سیٹ پر تشریف فرما تھے، اس سے پہلے ان سے کوئی باقاعدہ تعارف بھی نہ تھا، اور میں عربی کا کوئی زیادہ سنجیدہ سٹوڈنٹ بھی نہ تھا، استاد جی نے اپنے ساتھ بیٹھے کسی فیکلٹی ممبر سے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے ---؟انہوں نے بتایا کہ کسی روحانی خانوادے سے تعلق اور کسی سجادہ نشین صاحب کا فرزند ہے۔ اگلے دن اْستاد جی نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے گھر پہ طلب کرتے ہوئے، حاضری کا اذن دیا، میں ابھی ایم اے عربی سال اول کا سٹوڈنٹ تھا اور حضرت اْستاد جی فرمارہے تھے کہ میر ی خواہش ہے تم میرے ساتھ" پی ایچ ڈی" کرو۔میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوسکتی تھی۔الحمدللہ میں نے یہ اعزازانتہائی مختصروقت میں حاصل کرلیا۔ یوں ایسا مضبوط تعلق استوار ہوا، جو مختلف اتار وچڑھاؤ کے باوجود زندگی بھر قائم رہا۔ یونیورسٹی رہائشی کالونی میں آپ کا گھر ہمارے لیے ایک خانقاہ کی طرح تھا، جہاں آمدورفت بلا روک ٹوک تھی۔ ابتداً ہاسٹل نمبر16 اور مابعد 7 نمبر ہاسٹل،میں مقیم رہا، میرے سینئر اور استاد ڈاکٹر خالقداد ملک اور ڈاکٹر سیّد قمر علی زیدی اسی نیو کیمپس میں مقیم تھے، تقریبا ً ہر شام ہاسٹل سے استاذ ِکبیر کے گھر حاضری کا معمول تھا۔ پنتیس سال قبل یہ ایریا ایک الگ بستی تھی، شہر لاہور مسلم ٹاؤن پہ ختم ہوجاتا تھا، اس کے بعد نیوکیمپس اور اس کے سٹوڈنٹس ہی ہوتے تھے۔ بالعموم آپ کے گھر کے داخلی دروازے پر جو تے اْتارتے اور استاد جی کے قدموں میں بیٹھنے کا اعزاز پاتے۔ چراغ ِ گولڑہ پیر سیّد نصیر الدین نصیر گیلانی ایک مرتبہ مجھے کہنے لگے کہ میں ابن ِ عربی کی فصوص الحکم کے ایک مقام پر پھنسا ہوا ہوں، ڈاکٹر ظہور صاحب کے علاوہ مجھے کوئی شخصیت نظر نہیں آتی، جس سے راہنمائی ممکن ہوسکے۔میں نے ملاقات کا وقت لیا اور پیر صاحب کو ہمراہ لے کر استاد جی کے گھر پہنچ گیا۔ حسبِ عبادت ہم نے گھر کے باہر،ڈیوڑھی میں جوتے اْتارے تو حضرت پیر صاحب نے بھی اپنے مخصوص پوٹھوہاری لہجے میں یہ کہتے ہوئے اپنے جوتے اتاردیئے کہ استاد جی کا مقام صرف آپ ہی نہیں ہم بھی جانتے ہیں۔ حضرت پیر نصیر صاحب نے ایک طالبعلم کی طرح مذکورہ کتاب از خود اْٹھائی ہوئی تھی اور کمال عجزو نیاز سے اکتساب کیا، چند ہی لمحوں میں مسئلہ حل ہوگیا، رسمی تکلف لمحوں میں زائل اور ماحول میں محبت آمیزی فراواں ہوئی، قبلہ استاد جی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی پذیرائی اور علمی استعداد کی تحسین کی۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو گھر کی خواتین اور بچے پیر صاحب کو سلام پیش کرنے حاضر ہوگئے کہ ڈاکٹر صاحب کا گھرانہ حضرت اعلیٰ گولڑوی کے فیضان اور کمالات کا فیض جْو رہا۔