سوشل میڈیا کی راہداری میں آتے جاتے بہت ساری ایسی چیزیں نظر سے گزرتی ہیں جو اگلے روز اخبار میں بھی شائع ہوتی ہیں۔چھپی ہوئی چیز کو اخبار میں دیکھ کر کم از کم مجھے تو اچھا نہیں لگتا۔ کچھ بڑے نام اس سے مستثنٰی ہیں کہ ان کی لکھی ہوئی کوئی چیز اخبار میں شائع ہونا اخبار کے لیے بھی اعزاز ہے۔ اس سے اخبار والوں کا زبان و بیان بھی بہتر ہوتا ہے اور اخبار پڑھنے والوں کا زبان و بیان بھی ۔جیسے فیس بک پر ڈاکٹر معین نظامی کے نثرپارے ایسے تبرک ہیں جو میں اخبار میں بھی بڑے شوق سے بار دگر پڑھتی ہوں اسی طرح اسلم ملک صاحب کی فیس بک پر لگی ہوئی تحریریں بھی اپنی جگہ اہم ہوتی ہیں۔میں بڑے ناموں کے حوالے سے بات نہیں کر رہی ہوں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے لکھنے لکھانے کے عمل میں ہی زندگی گزاری ہے اور ان کی زبان و بیان بھی درست ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی اخبار کے سنڈے میگزین میں ایسی تحریر نظر سے گزری جو فیس بک سے اٹھا کر سیدھا ہی اخبار کے میگزین میں چھاپ دی گئی تھی۔زبان و بیان کا حال یہ تھا کہ پنجابی کے سلینگز slangs بھی اس میں شامل کیے گئے تھے روزمرہ کی بے تکلف زبان میں کسی ایسے شخص کی تحریر تھی جو کہیں سے بھی لکھاری معلوم نہیں ہوتا تھا۔ایسی زبان اخبار میں کم از کم ہم نے تو کبھی نہیں پڑھی۔ ایک وقت تھا کہ اخبار کی اہمیت اس لیے بھی ہوتی تھی کہ اخبار پڑھنے والے زبان و بیان سیکھتے تھے اور ان کے علم میں اضافہ ہوتا تھا۔ہماری زندگی میں بھی اخبار نے یہ کردار ادا کیا ہے۔کئی برس تک تواتر سے اے حمید کے خوبصورت نثر میں لکھی ہوئی امرتسر کی یادیں، بارش، سماوار اور خوشبو کسی کتاب میں نہیں بلکہ اخبار ہی میں پڑھتے رہے ہیں۔ یہ بات اکثر زیر بحث رہتی ہے کہ اخبار کا مستقبل کیا ہے؟ کیا اخبار سوشل میڈیا کے اس سیلاب کے سامنے سروائیو کر سکیں گے؟ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جب لوگوں کو اپنے اظہار کا موقع ملا تو انہوں نے اس میڈیم کو اپنایا اور ہرکسی کو ہی اظہار کرنے کا ایک ذریعہ ہاتھ آیا۔ سوشل میڈیا پابندیوں سے آزاد میڈیم ہے اس لیے یہاں سب کچھ چھپتا ہے۔ سوشل میڈہا تو ایک جناتی طاقت رکھنے والا میڈیم ہے ۔ اس کے فوائد اور اس کے سوسائٹی پر اثرات اور ہماری زندگیوں کو اس نے کیسے بدلہ ہے اس پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اب سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے یہ معاشی سرگرمیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا کے وجود پر اور اس کی اہمیت سے بالکل انکار نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اخبارات کے متوازی سوشل میڈیا موجود ہے اور اس پر ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ مگر کیا ہر لکھنے والا مصنف کے درجے پر بھی فائز ہوتا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر آزادی ہے آپ کچھ بھی لکھ سکتے ہیں اور ایک کیا دس پوسٹیں دن میں کر سکتے ہیں جب کہ اخبار میں شائع ہونے کے لئے تحریر کا ایک معیار رکھا گیا ہے۔اس کی پالیسی کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے ۔ اخبارمیں اپنی تحریر شائع کرانے کے خواہش مندوں کو ایک انتظار کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے ایک مضمون اخبار میں چھپنے سے پہلے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ اگر زبان و بیان میں کوئی کمی ہو تو اس کی نوک پلک سنوار کر ہی ا سے اخبار کی زینت بنایا جا تا ہے۔ اگرچہ اخبار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شام تک باسی ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اخبار میں معیاری تحریریں ہی جگہ پاتی ہیں۔ یہ تو اب ہی نظر آنے لگا ہے کہ فیس بک پر چھپی ہوئی ادھر ادھر کی تحریریں اٹھا کے اخبار کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے یہ اخبار کے قاری کے ساتھ زیادتی ہے کہ سارا دن سوشل میڈیا پر اس کی نظروں سے جو کچھ گزر رہا ہے جب اگلے روز وہ اخبار خرید کر پڑھے تو اس میں بھی وہی کچھ پڑھنے کو ملے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اخبار سے وابستہ جینوئن صحافیوں اورذمہ دار ایڈیٹرز کو اس پر سوچنا چاہیے اور سوشل میڈیا پر آئے ہوئے سیلاب کے مقابلے میں اپنی ٹیم بہتر بنانی چاہیے اپنے کام کو بہتر بنانا چاہیے اور ایکسکلوسیو تحریریں اخبار میں شائع ہونی چاہیں۔ سوشل میڈیا کے مقابلے پر اخبار کی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے اخبار کے لوگ اپنا ایکسکلوسیو کام کریں تاکہ لوگ اخبار خرید کر پڑھنے پر مجبور ہوجائیں۔سوشل میڈیا سے چیزیں اٹھا کر اخبار میں شامل نہ کریں اس طرح شوبز کی خبریں بھی وہی اخبار میں شائع ہو رہی ہوتی ہے جو ایک دن پہلے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے پروفیشنل کالم نگار جو اخبار میں ہفتہ وار دو تین کالم لکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں انہیں بھی ذمہ داری اور حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔کالم کے موضوع کالم کی تحریر کو ایکسکلوسیو رکھنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر بھی وہی چیز لکھی ہوئی اور اگلے روز کالم میں بھی وہی تحریر موجود ہو تو پھر اس میں نیا کیا ہوگا۔اب جو لوگ اخبار خرید کر پڑھتے ہیں یہ ان کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے وہ لوگ بھی اخبار خرید کر پڑھنا چھوڑ دیں گے جب ان کو وہی چیزیں اخبار میں بھی پڑھنے کو ملیں گی اس معاملے میں ایڈیٹر صاحبان کو بھی حساسیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر اردو مواد کی ویب سائیٹس بھی اپنے لکھنے والوں کو پابند کرتی ہیں کہ وہ اپنی تحریر ویب سائٹ پر بھیجنے سے پہلے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بھی شئیر نہ کریں۔حالانکہ یہ ویب سائٹس قارئینِ کو مفت میسر ہیں انہیں پیسے نہیں دینے پڑتے۔ اخبار تو قاری پیسے دے کر خریدتا ہے ایکسکلوسیو تحریریں اور کچھ ایکسکلوسیو خبریں پڑھنا اس کا حق ہے آپ کی کیا رائے ہے؟ ٭٭٭٭٭