بلوچستان یونیورسٹی میں مارچ 1980ء میں پڑھانا شروع کیا تو ابھی تک وہاں کے بلوچ اور پشتون نوجوانوں کے دلوں اور ذہنوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے چار سالہ آرمی ایکشن کے زخم تازہ تھے۔ یونیورسٹی میں لاتعداد ایسے طلبہ تھے جو افغانستان کی جلاوطنی، پہاڑوں کے مورچوں اور حیدرآباد بغاوت کیس کے خاتمے کے بعد واپس نارمل زندگی میں جولائی 1977ء کو لوٹے تھے اور اب اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں تک آ پہنچے تھے۔ ہر کسی کے اپنے اپنے زخم تھے اور اپنی اپنی کہانی۔ پنجاب میں چوبیس سال گزارنے والے میرے جیسے نوجوان کے لئے ہر ایک کہانی چونکا دینے والی اور ہر ایک زخم حیران کن تھا۔ اپنے ہی ملک میں پیدا ہونے والے نوجوان اس لئے غدّار تھے کیونکہ انہوں نے جس سیاسی پارٹی کا ساتھ دیا تھا وہ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالف تھی اور بھٹو کی آمرانہ اور فیوڈل سوچ یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ دو صوبوں میں اس کے مخالف حکومتیں ہوں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ منطق نہیں آتی تھی کہفوج بلوچستان میں بھٹو کی مطیع و فرمانبردار ہو کر بلوچوں پر آرمی ایکشن کرنے پر مجبور کیسے ہو گئی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ عقدہ کھلا کہ ’’ امریکہ‘‘ نے خطے میں اپنے تھانیدار شاہ ایران کو تحفظ دینے کے لئے انہیں پاکستانی بلوچوں پر اس ایکشن کے لئے مجبور کیا تھا۔ کیونکہ سوویت یونین ایران کے محلقہ علاقے سیستان بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو پروان چڑھا رہا تھا اور خدشہ تھا کہ اسے یہاں کی حکومت سپورٹ نہ کرے۔ بلوچستان کے عام نوجوان کا سیاسی شعور بھی اس قدر عمدہ ہے کہ وہ اس دور میں بھی اس ساری ’’گیم‘‘ کو سمجھتا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں پنجاب کے پڑھے لکھے نوجوان کے سوچنے کا دائرہ کار ہمیشہ ہی سے محدود رہا ہے۔ پنجاب میں جس کو سرکار غدّار کہہ دے وہ غدّار ہے اور جس کوملک دُشمن قرار دے وہ آپ کے سامنے حب الوطنی کی لاکھ قسمیں بھی کھائے اس پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ جب 25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن شروع ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو جو مغربی پاکستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن اور مقبول رہنما تھا، اس نے پاکستان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ پر پابندی لگانے اور آرمی ایکشن پر ایک فقرہ کہا کہ ’’اللہ کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ اور مغربی پاکستان کے باسیوں خصوصاً پنجابیوں نے اس کی یہ بات دل میں ایسی بٹھائی کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے ساٹھ فیصد عوام کو غدّار سمجھنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آرمی ایکشن کے خلاف لاہور میں صرف تین افراد طاہرہ مظہر علی خان، حسین نقی اور ایک اور فرد نے جلوس نکالا، تو ان سے نفرت کا اس قدر اظہار کیا گیا کہ لوگ دو رویہ کھڑے ہو گئے اور ان پر مسلسل تھوکتے رہے۔ مغربی پاکستان میں رہنے والے پنجابیوں اور سندھیوں کو بالکل اندازہ ہی نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ ان کے دل بھٹو کے ساتھ دھڑکتے تھے اور مدتوں یہ ایوب خان اور یحییٰ خان کے مارشل لائوں کو پاکستان کی بقا اور سلامتی کی علامت سمجھتے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی اس عرصے میں یہاں سے مشرقی پاکستان گیا خواہ سویلین تھا یا فوجی، اس نے اس دور کے بارے میں خونِ دل میں ڈبو کر باتیں لکھیں۔ میجر جنرل خادم حسین راجہ جہلم سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ان دنوں مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا، میجر جنرل رائو فرمان علی اور خادم حسین راجہ نے اس آپریشن سرچ لائٹ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انہوں نے ان نو مہینوں کی روداد اپنی کتاب "A Stranger in My Own Country"۔ ’’اپنے ہی ملک میں اجنبی‘‘ میں خونچکاں لفظوں سے تحریر کی ہے۔ لاتعداد واقعات ہیں جو آنسو رُلاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’جب جنرل نیازی نے چارج لیا تو وہ فوراً آپریشن روم میں داخل ہوا اور فوراً کہا کہ میں آ گیا ہوں اور اب میں (گالی دے کر) اس قوم کی نسل بدل دوں گا، یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں‘‘۔ کمرے میں لاتعداد بنگالی آفیسر بھی موجود تھے، ایک سنّاٹا چھا گیا۔ اچانک ایک بنگالی آفیسر میجر مشتاق اُٹھا اور ساتھ ہی باتھ روم میں چلا گیا اور اس نے اپنے ہولسٹر سے پستول نکال کر اپنے سر میں گولی مار لی۔ وہ یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکا اور دُنیا چھوڑ گیا۔ ایسے کسی واقعے کی ایک انچ خبر بھی اخبارات میں لگانا اور گفتگو کرنا اس وقت بھی غدّاری کے مترادف تھا اور شاید آج بھی ہو۔ ہماری سیاسی قیادت تو ان تمام واقعات سے آشنا تھی۔ پیپلز پارٹی ہو یا اس کی مخالف پارٹیاں سب جانتی تھیں کہ جنرل ٹکا کو مشرقی پاکستان میں، قصاب کہا جاتا تھا۔ بلوچستان کا سارا آرمی ایکشن اسی کی نگرانی میں مکمل ہوا تھا۔ ضیاء الحق تو آخری دنوں میں آیا تھا۔ مگر اسی ٹکا خان کو پیپلز پارٹی نے اپنا سیکرٹری جنرل بنایا اور پھر اس ’’محبِ وطن‘‘ سرزمین پنجاب کا اسے گورنر لگایا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی والے ضیاء الحق کو گالی دیتے تھے کہ اس نے بھٹو کو قتل کیا لیکن ہزاروں بنگالیوں اور بلوچوں کے مجرم کو اعزاز بخشتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ جنرل نیازی جس سے 1971ء میں یہ قوم شدید نفرت کرتی تھی، جلوسوں میں اس کے خلاف نعرے لگاتی تھی۔ جب 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک شروع ہوئی تو جنرل نیازی کو سیاست کی لانڈری میں دھو دُھلا کر سٹیج پر لا کھڑا کیا گیا اور وہ اپنی زبان میں اپنے گناہوں کی بجائے بھٹو کی غدّاریوں کا ذکر کرتا اور لوگ تالیاں بجاتے۔ جلالپور جٹاں کے ایک جلسے میں، میں سٹیج سیکرٹری تھا، میں نے تقریر کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا واقعی بھٹو کا ہی سارا قصور تھا۔ کہنے لگا ’’ہم فوجی سادہ لوگ ہوتے ہیں، ان دونوں لیڈروں نے ہمیں مل کر بے وقوف بنایا‘‘۔ کاش خادم حسین راجہ کی کتاب اس وقت تک آ چکی ہوتی تو میںاس سے پوچھتا کہ تم اتنے سادہ تھے کہ گیارہ اپریل کو جنرل خادم حسین راجہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے ’’یار لڑائی کی فکر نہ کرو، وہ تو ہم لڑیں گے، ابھی تم مجھے بنگالی گرل فرینڈز کے نمبر دے دو‘‘۔ میں اگر بلوچستان نہ جاتا تو مجھے پنجابیوں کی کم علمی کی بنیاد پر انکی بے حسی کا کبھی اندازہ نہ ہوتا۔ آج بھی ہم کس قدر آرام سے یہ خبریں سنتے رہتے ہیں کہ بلوچستان سے لوگ لاپتہ ہوتے ہیں، پھر کئی سال بعد دردناک کہانیاں لئے برآمد ہوتے ہیں۔ ہمیں بالکل حیرانی نہیں ہوتی تھی جب پورے سوات اور وزیرستان سے لاکھوں عوام کو ان کے گھروں سے نکال کر ٹینٹوں اور عارضی پناہ گاہوں میں لے جایا گیا کہ ان علاقوں میں آپریشن کرنا مقصود تھا۔ کیا ایسا کچھ اگر لالہ موسیٰ، گکھڑ یا میاں چنوں کے چھوٹے سے قصبوں میں بھی ہوتا تو ہم اس پر ایسے ہی آرام کی نیند سو رہے ہوتے۔ ہمیں کسی نے آج تک غدّار نہیں کہا اس لئے ہمیں اس تہمت کے دُکھ کا اندازہ نہیں ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھانے کے ابتدائی دنوں سے ہی مجھے اکثر شام کو نواب اکبر بگٹی صاحب کی محفل میں بیٹھنے کا موقع ملتا۔ ان دنوں بلوچستان کی پولیس میں اکثریت پنجابیوں کی تھی۔ ایک دن کہنے لگے تم پنجابی پولیس والے بلوچوں پر بہت ظلم کرتے ہو۔ میں نے کہا کہ جتنا یہ پنجابی پولیس والے اپنے پنجابیوں پر ظلم کرتے ہیں اس کا تو یہ عشرِ عشیر بھی نہیں۔ اپنے مخصوص انداز میں مونچھوں کو تائو دیا اور بولے جس دن تم لوگوں میں احساسِ غیرت جاگا اور تم ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے تو اس دن یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ گذشتہ چھ ماہ میں پنجابیوں کو بھی تھوک کے حساب سے غدّاری کے سر ٹیفکیٹ ملنا شروع ہوئے ہیں۔ یہ بھی جان بچا کر بھاگنے کی اذیتوں سے گزرنے لگے ہیں۔ کیسا لہجہ بدلا ہے سب کا؟ خواجہ غلام فریدؒ نے ان نازک مزاجوں کے بارے خوب لکھا ہے: جنیاں میرے تن تے لگیاں، تینوں اِک وی لگے تے جاناں