لاہور ہی نہیں پورے پاکستان کے طول و عرض میںجو کچھ ہوااس کے نتیجے میںہر پاکستانی جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ فلیگ سٹاف ہائوس کی عمارت کی چاردیواری اوربعدا زاں خود عمارت کے اندر سے جو مناظر جستہ جستہ سامنے آئے، انہوں نے دلوں کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ رفتہ رفتہ جب دھول بیٹھے گی،راکھ سے اٹھنے والادھواں سرد ہوگا ،جذبات ٹھکانے پر آئیں گے، تو ہی نقصان کی شدت کا اندازہ ہوگا۔ دن گزریں گے تو ذمہ داری کا تعین بھی ہو جائے گا۔ آج نہ ہوا تو آنے والیں نسلیں حساب لیں گی۔ تاریخ اس باب میں بے رحم ہے۔ حساب ایک نہ ایک دن ضرور بے باک کرتی ہے۔ ازکارِ رفتہ سپاہی نے کہ لگ بھگ چار عشرے خاکی میں گزارے۔ اب بھی اپنے جیسوں کے بیچ ہی رہتا ہے۔عمر بھر لوگوں سے اپنے پیشے کی بناء پر محبت ہی سمیٹی۔ کسی خوف کی بناء پر نہیں، عوام اور پاک فوج کے لازوال رشتے کے بل بوتے پر۔ ایوب خان آئے۔یحییٰ خان کا پر آشوب دور بھی گزرا۔ ضیاء الحق اور مشرف کے مارشل لائوں کو تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی میںپائی جانے والی تلخی کی حدت کا تجربہ بھی ہماری عمر کے وردی پوشوں نے کیا۔ گزشتہ برسوں نام لے لے کرکیا کیاکچھ نہیں کہا گیا۔ ہر کڑے دور میں وقتی رنجشوں کے باوجود مگر افواجِ پاکستان اور عوام کے مابین محبت کا رشتہ کمزور نہ کیا سکا۔ہربحران کے بعد ملک جب بھی ایک بارپھر آئین اور قانون کی حکمرانی کے راستے پر گامزن ہوا، عوام کے دلوں میں پائی جانے والی رنجشیں دھلنے لگیں۔دوسری طرف دیکھا گیا کہ گزشتہ تین عشروں میںجب جب جمہوریت بحال ہوئی ، بوجہ عوام کی جمہوری حکمرانوں سے بیزاری میں اضافہ ہی ہوا۔ چنانچہ مشرف کے مارشل لاء کی شاندار عوامی پذیرائی میں تو خود بے نظیر بھٹو تک شامل تھیں۔اگرچہ مارچ 2007ء تک مشرف کوایک مقبول حکمران کی حیثیت حاصل رہی ،تاہم ان کے اقتدار کے آخری برسوں میں صورتحال یوں بگڑی کہ وردی پوشوں کا عوامی مقامات پر جانا دشوار ہو گیا۔سٹاف کاروں سے جھنڈے اتار دیئے گئے۔ بی اے نمبرز کی جگہ فوجی گاڑیوں پر سول رجسٹریشن نمبرز لگا دیئے گئے۔ پرائیویٹ کاروں پر سے سبزگول دائرے میں دو تلواروں والے معروف سٹکرز تک کھینچ لئے گئے۔ ایک بے چہرہ دشمن کو مگر عوام کی مدد اور تائیدکے ساتھ نیست و نابود کر دیا گیا۔ جو بچے انہیں سرحد پار دھکیل دیا گیا۔نئی صدی پھوٹی تو ڈو مور کا لا متناعی مطالبہ شیطان کی آنت کی طرح کھنچتا ہی چلا گیا۔ دبائو بڑھانے کے لئے ففتھ جنریشن وارکے نام سے ایک بے چہرہ جنگ ریاست پر مسلط کی گئی۔ کل کے سرخے اور دورِ حاضر کے نام نہاد جمہوریت پسند، آئین کی سربلندی ،سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق کے نام پر کیسے اکھٹے ہوئے اوران کے توڑ کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے کیا کیا چالیں چلیں، ابھی کل کی بات ہے۔یہاں دہرائے جانے کی محتاج نہیں۔تاہم اس بیچ جب کہ عالمی شطرنج پر مہرے نئے سرے سے ترتیب پا رہے تھے، خود ہمارے معاشرے میں ایک ایسی جوہری تبدیلی رونما ہوئی کہ جس کا ادارک بہت سوں کو اکتوبر 2011 ء کی شام مینارِ پاکستان کے نیچے شہریوں کے سمندر کو دیکھ کرہی ہوا۔ایک نئی نسل تھی جو مستقبل سے متعلق بے قرار تھی۔ بڑے بوڑھے مردو زن تھے جو تیس سالہ طرزِ حکمرانی اوراب انہی حکمرانوں کی اگلی نسلوں کے خود پر مسلط کئے جانے کے تصور سے ہی بے زار تھے۔ ایک شخص نے انہیں خواب دکھائے تو انہوں نے اپنی پلکوں سے چُن لئے۔اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی پارٹی اب ان تمام گروہوں کا مشترکہ نشانہ بن گئے جو آئین کی سربلندی ، سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی نام نہاد جدو جہد کے نام پر اپنے تئیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کئی برسوں سے بر سرِ پیکار تھے۔اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ دن یقینا بھاری تھے۔ وجوہات جو بھی ہوں،اسٹیبلشمنٹ بھی مقبول رومانوی بیانیئے کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔عمران خان کو کون اقتدار میں لایا ، ان کا دور حکومت کارکردگی کے لحاظ سے کیسا تھا، اور کن حالات کے اندر ان کی حکومت گرائی گئی۔ان معاملات پر بحث کی جا سکتی ہے۔تاہم جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت سے باہر آنے کے بعدکئے گئے عمران خان کے کئی فیصلے بھی ملکی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے ہیں، وہیںیہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کیا دوسری طرف کا طرزِ عمل عین جمہوری تھا؟ گروہی اوراکثر شخصی مفادات کی اس کشمکش میںدلوں میںغبار جمتا چلا گیا۔ اب جب کہ ہم افواہوں میں گھرے ہوئے اورملک کے معاشی مستقبل سے متعلق بے یقینی کا شکار ہیں تو ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کو مٹانے کی خواہشات پر قابو پایا جائے۔ گھر جل جائے تو اسے چھوڑا نہیں جا سکتا، دوبارا تعمیر کیا جاتا ہے۔ شرپسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبرد آزما ہونا ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ شرپسند اہم مقامات پر بلا روک و ٹوک کیسے پہنچے اور گھنٹوں غارت گری میں کیونکر مصروف رہے۔تاہم شر پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ساتھ ساتھ یہ وقت زخموں پر مرہم رکھنے کا بھی ہے۔ کئی مفاد پرست، اس وقت جبکہ اسٹیبلشمنٹ زخم خوردہ ہے، اپنا اپنا پائونڈکا ٹنے کی کوشش کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے غصے کو عذر بناکر غیر قانونی پابندیوں اورپر تشدد کاروائیوں میںاضافہ ہر گز نہیں ہونا چاہیئے۔ قانون کو اپنا راستہ خود بنانا چاہیئے۔ انتشار اور افراتفری انتخابات کے غیر آئینی التوا ء کا سبب بنیں گے۔غیرآئینی التوا مزید انتشار کا سبب بنے گا۔ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائیوں کے شائبے سے بھی دور رکھے ۔دوسری طرف تحریکِ انصاف کو اپنی مقبولیت کے زعم سے باہر آنا چاہیے اور با آوازِ بلند پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کرنی چاہیئے۔ حکومت وقت کے لئے بھی لازم ہے کہ اپنے سیاسی حریفوں کو سانس لینے کا موقع دے۔تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ حالیہ پر تشدد کارروائیوں کے بعدپوری جماعت کو دہشت گرد یا ملک دشمن کہہ کر مخاطب کرنا معاملات کو سدھارنے کی بجائے ، مذہب اور قومیت کی بناء پر دہشت گرد ی اور ملک دشمن کارروائیوںمیں ملوث ہونے والوں کے لئے تقویت کا باعث بنے گا۔سیاسی جماعتوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی صفوں میں سے انتہا پسندوں کوپیچھے دھکیلتے ہوئے با معنی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کے پر امن انعقادکی راہ ہموارکریں۔وقت آگیا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کسی خارجی دبائو کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے مفاہمت کی فضا پیدا کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ انتخابات ہو ں گے تو ایک فریق ہارے گا ، دوسرا حکومت تشکیل دے گا مگراسی میں ہماری بقاء ہے۔ملک باقی رہے گا، معیشت بحال ہو گی تو ایک بار پھر ہم جیسے انہی سڑکوں پر پاک فوج زندہ باد کے نعرے گونجتے ہوئے سنیں گے۔