اسحاق ڈار صرف دعویٰ نہیں کر رہے تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ پرانے حربوں سے وہ ڈالر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس بار مگر ایسا نہیں ہوا ۔ اسحاق ڈار صرف ناکام ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کی حکمت عملی سے الٹا نقصان ہو گیا۔ اسحاق ڈار کا پرانا فارمولا بڑا سیدھا سا تھا۔ وہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ماضی میں جب بھی ڈالر کی کمی ہونے لگتی وہ سپلائی بڑھا دیتے ۔ قومی خزانے سے ڈالر کی کمی پوری کر دیتے ۔سپلائی پوری رہتی تو ڈالر کی ڈیمانڈ بھی پوری ہوتی رہتی تھی۔ اگرچہ اس سے قومی خزانے کو خاصا نقصان ہوتا تھا مگر ایکسچینج ریٹ زیادہ متاثر نہ ہوتا تھا۔اس بار انہوں نے کچھ مختلف کیا۔ اس بار قومی خزانے میں سکت نہ تھی کہ سپلائی کو پورا کرنے کے لیے اپنے پاس سے ڈالر مارکیٹ میں پھینکے جاتے۔ یوں جب وہ مارکیٹ کو پوری سپلائی دینے کی پوزیشن میں نہ تھے تو انہوںنے دوسرا حربہ اختیار کیا ۔ اس بار ڈیمانڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسحاق ڈار نے سوچھا کہ سپلائی تو بڑھائی نہیں جا سکتی ، کیونکہ ڈیمانڈ ختم یا کم کر دی جائے۔ اسی حکمت عملی کے تحت ایل سیز کھولنے پر پابندی لگ گئی۔یعنی ڈالر کی ضرورت کو کم کر دیا گیا۔ اب سامان پاکستان آئے گا تو ڈالر باہر جائے گا ناں۔ امپورٹ بند ہو گئی، کارخانے بند ہو گئے، کاروبار بند ہو گئے اور ملک میں معاشی افراتفری کاآغاز ہو گیا۔ اسحاق ڈار کو تھوڑے ہی عرصے میں نظر آنے لگا تھا کہ ان کی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے مگر ایک شخص سے لگائی گئی ضد اور انا کی خاطر انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کی۔ پاکستان آنے سے پہلے انہوں نے مفتاح اسمعیل کی معاشی حکمت عملی پر بہت تنقید کی تھی۔ جب ڈالر 220 روپے پر پہنچا تھا تو اسحاق ڈار نے فرمایا تھا کہ ڈالر 180 کا ہے مگر مفتاح کی ناقص حکمت عملی نے اسے یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ڈالر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والی مارکیٹ فورسز بھی مفتاح کے قابو نہیں آ رہیں ، یہی وجہ ہے کہ پا کستان میں قدم رکھتے ہی انہوں نے بیان دیاتھا کہ دیکھیں جہاز میں بیٹھتے ہی سٹے باز گھبرا گئے اور ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا۔اب چونکہ وہ اتنے بڑے بڑے دعوے کر چکے تھے،مفتاح اسمعیل کے خلاف بیان بازی کر کے انہیں عہدے سے ہٹوا چکے تھے،یہی وجہ ہے کہ اپنی انا کی خاطر وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ اسحاق ڈار کو معلوم تھا کہ روپے کی اصل قیمت دو سو ستر اور اسی کے درمیان ہے، مگر اس کے باوجود انہوں نے مارکیٹ کو روپے کی قدر کا تعین نہ کرنے دیا۔ آئی ایم ایف یہ سب کچھ ہوتا خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جب یہ ہمارے پاس قرضہ لینے آئیں گے تو ہم انہیں کان سے پکڑیں گے۔ وہی ہوا، جب اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے پاس گئے تو انہوں نے پہلی ہی شرط یہ رکھی کہ روپے پہ مصنوعی کنٹرول ختم کیا جائے۔اسحاق ڈارنے پہلے تو پہلو بدلے مگر پھر انہیں ہار ماننا پڑی۔ پہلے ہی جھٹکے میں روپیہ دھڑام سے زمین پہ جا گرا۔ اسحاق ڈار صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے ہم آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مانیں گے، ہم اپنے حالات کے مطابق فیصلے کریں گے۔ یہی چورن انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو بھی بیچا تھا۔ اسحق ڈار جب لندن میں تھے تو نواز شریف کو یقین دلایا کرتے تھے کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے سوا بھی ہمارے پاس حل موجود ہیں۔ اب عالمی منڈی میں قیمتیں گر چکی ہیں مگر آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کی خاطر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں ۔ پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارے پچھلے دس ماہ میں پاکستان کی ریٹنگ کو سات بار گرا چکے ہیں ، تین بار فچ اور دو بار تو موڈیز ہی پاکستان کی ریٹنگ کو منفی اور مزید منفی کر چکا ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ قرض دینے والے ممالک اور ادارے اپنی شرائط سخت کر دیتے ہیں ۔ انویسٹرز بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو کے کاروبار روک دیتے ہیں اور مارکیٹ منجمد ہو کے رہ جاتی ہے، بیروزگاری بڑھتی ہے اور حالات دن بد ن بدتر ہونے لگتے ہیں۔ اسحاق ڈار کی ناقص اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے خود ن لیگ کی لیڈرشپ بھی پریشان ہے ۔ مریم نواز کی لیک ہونے والی ایک آڈیو میں وہ مفتاح اسمعیل پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی نظر آئیں۔اسحاق ڈار کو بڑی توقعات کے ساتھ پاکستان لایا گیا تھا مگر وہ ایک بڑا ڈیزاسٹر ثابت ہوئے ۔اب بظاہر شہباز شریف اور مریم نواز کی رائے میں ایک فرق دکھائی دیتا ہے۔ مریم نواز اب بھی جلسوں میں اسحاق ڈار کا دفاع کرتی ہوئی نظر آتی ہیں مگر شہباز شریف کیمپ کی بے چینی واضح ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اسحاق ڈار کی پالیسز نے ان کے لیے انتخابات میں اترنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی فچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی مشکلات آئی ایم ایف سے ملنے والی قرض کی قسط کے بعد بھی ختم نہیں ہوں گی،بلکہ اس کے بعد بھی پاکستان کو پانچ ارب ڈالر کی مزید ضرورت ہو گی۔ مختصر یہ کہ اگلے کئی مہینے تک معاشی میدان سے کوئی اچھی خبر آتی دکھائی نہیں دیتی۔ یوں اسحاق ڈار اور حکومت کے لیے بھی حالات بدستور ایک امتحان کی صورت برقرار رہیں گے۔ خدا پاکستان کا بھلا کرے،جیسا کہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ پاکستان کا اللہ ہی وارث ہے۔ ٭٭٭٭٭