9 مئی 2023ء کو جو ہوا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس دن پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے سرپسندوں نے پاکستان کی مسلح افواج کی اہم نتصیبات پر ہلہ بول دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی سیاسی جماعت کی آڑ میں مسلح جتھوں نے افواج پر یوں حملہ کیا۔ اس دن جو بھی ہوا بہت برا ہوا۔ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور کے کور کمانڈر کے گھر پر جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوںکے روپ میں مسلح جتھوں توڑ پھوڑ کی وہ بہت ہی شرمناک بات ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ 9 مئی 2023ء کو سارا ملک ایک طوفان کی زد میں تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو جس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا وہ واقعہ بھی اپنے طور پر ایک المیہ ہے۔ لیکن اس واقعہ کی آڑ میں جو رد عمل سامنے آیا وہ بہت خوفناک تھا۔ سارے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ 9مئی سے لیکر 12 مئی تک چار دن سارے ملک میں انٹر نیٹ بند رہا۔ کسی کو کوئی پتہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ان تین دن میں اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق 100 سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی۔ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اور ہزاروں لوگ گرفتار ہوئے۔ ان پرتشدد واقعات نے سارے ملک میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس دن پاک افواج کا رویہ قابل تحسین رہا انہوں نے ہر جگہ پر قوت کے استعمال سے گریز کیا۔ اگر اس دن پاک فوج کا بھی جوابی ردعمل آتا تو نہ جانے کیا ہوجاتا۔ ہزاروں لوگ اپنی جان سے چلے جاتے۔ اس واقعے سے بہت سے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ سب سے پہلے کیا ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں اور ان کی لیڈر شپ اس قابل ہے کہ وہ کسی ہنگامی صورتحال سے نپٹ سکے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔عمران خان کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں کوئی ایک بھی مرکزی راہنما ایسا نہیں ہے جو عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کر سکے۔ اس دن عمران خان کو صرف گرفتار کیا گیا تھا۔ اگر خدا نخواستہ عمران خان کی جان کو کچھ ہو گیا تو اس ملک کا کیا ہو گا یہ بات بھی سوچنے کی ہے۔ بے نظیر کی شہادت پر صرف ایک صوبے میں ہنگامے ہوئے تھے۔ اس دن کے بعد آج تک پاکستان ریلوے کا ادارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ پنجاب پولیس بھی اس دن مکمل طور پر ناکام رہی۔ جس پولیس نے کئی بار تحریک انصاف کے مارچ روکے اس دن وہ پتہ نہیں کہاں غائب تھی۔ کس طرح لوگ لبرٹی چوک سے کور کمانڈر ہاوس تک پہچے۔ ان مسلح افراد کو راستہ میں کہیں کیوں نہیں روکا گیا۔ ہمارے ایجنسیاں کیوں اس بات میں ناکام رہی یا وہ ان لوگوں کے عزائم کو نہیں بھانپ سکیں۔ ہم بطور ریاست مکمل طور پر فیل ہو چکے ہیں۔ جب لوگوں کو اطلاعات سے محروم رکھا جائے گا تو افواہ سازی اپنے عروج پر ہو گی۔ملک کے تمام میڈیا پران ہنگاموں سے مکمل بلیک آؤٹ تھا۔ پی ٹی وی سوائے حکومت کے اراکین کی پریس کانفرنس کے علاوہ کچھ نہیں دکھا رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا۔ شاید ہمارے ملک کے سیاستدان گزشتہ پچاس سال سے نفرت کی جو فصل بو رہے ہیں اس کے کاٹنے کا وقت آگیا تھا۔ ابھی کچھ افراد کے ذہن میں سپریم کورٹ پر حملہ کی داستان موجود ہے جب سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا تھا۔15 مئی کو پی ڈی ایم نے بھی وہی حرکت کی۔ سپریم کورٹ کے گیٹ کو جس طرح سے جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں نے عبور کیا وہ تصویریں بھی ایک عرصے تک عوام کے ذہنوں میں رہیں گی۔ ہماری حکومت کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آرہی کہ اگر عوام کو معلومات سے محروم رکھا جائے گا تو افواہ سازی کو تقویت ملے گی۔ سماجی رابطے کی تمام سائٹس بند تھی۔ پہلا موقع تھا جب لوگ فیس بک، ٹوئیٹر ، یو ٹیوب اور انسٹا گرام کے بغیر رہے۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس سے چشم پوشی ممکن نہیں ، جو افراد ان ہنگاموں میں ملوث تھے ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ان تمام واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک جیوڈیشل کمیشنبنایا جانا چاہئے۔ حکومت پنجاب سے پوچھا جائے یہ واقعات کیوں رونما ہوئے۔ کیسے ہزاروں لوگ فوجی تنصیبات تک پہنچے۔ اس کمیشن کی رپورٹ جلد شائع ہونی چاہئے اور ا س کمیشن کی رپورٹ کے مطابق عدالتی تحقیقات جلد از جلد مکمل ہوں جو افراد ان واقعات میں ملوث ہیں انکو قرار واقع سزا دی جائے۔ اب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے طور پر ہوش کے ناخن لیں۔ اپنے سیاسی کارکنوں کی تربیت کریں۔ عمران خان کو بھی کچھ فہم و فراست سے کام لینا چاہئے۔اگر وہ آئے دن افواج اور اس کی ایجنسی پر الزام دھریں گے تو پاکستان تحریک انصاف کے کارکن پاکستان کی افواج کے خلاف ہونگے جو کسی طرح سے خوش آئند بات نہیں ہے۔ عمران خان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر شاید کل ناں ہوں مگر پاکستان کے عوام اور پاکستان کی افواج کا رشتہ تو قائم رہنے والا ہے اور قائم رہے گا۔ دنیا کی کوئی فوج اپنے عوام سے کٹ کر ملک کا دفاع نہیں کر سکتی۔ مشرقی پاکستان کا المیہ ہوئے صرف پچاس سال ہوئے ہیں اور یہ زخم ایسا ہے جو صدیوں تک باقی رہے گا۔ ہمارے تمام اکابرین پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سپین میں جو کچھ ہوا وہاں بھی مختلف طبقات ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے تھے بعد میں عیسائیوں نے ان سب افراد کو سپین سے بے دخل کر دیا جو پہلے عربی، عجمی، بر بر اور نو مسلم سپینی باشندوں میں تقسیم تھے۔ طوفان جب آتا ہے سب کو بہا کر لے جاتا ہے نہ انسان بچتے ہیں ناں حیوان۔