وفاقی شریعت کورٹ کے اندر اور باہر پاکستان میں مظلوم خواجہ سرائوں کے حقوق کی سب سے بڑی علمبردار اور پیدائشی خواجہ سرا حاجی الماس بوبی نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ پورے پاکستان میں خواجہ سراء کے نام پر آج تک جتنے لوگ بھی قتل ہوئے ہیں، ان میں سے ایک بھی خواجہ سراء نہیں تھا، بلکہ وہ پہروپئے تھے، جو اپنی ہم جنس پرستی کی تسکین کے لئے خواجہ سراکا روپ دھارے ہوئے تھے۔ جب ان کا پوسٹ مارٹم ہوا تو وہ سب مکمل مرد نکلے۔ لیکن ہمارا سیکولر، لبرل اور مغرب پرستانہ اقدار کے ہاتھوں بِکا ہوا میڈیا، انہیں مظلوم بنا کر اس لئے پیش کرتا ہے تاکہ اس مظلوم خواجہ سرا کمیونٹی کی آڑ میں ہم جنس پرستوں کو عزت دی جائے۔ حاجی الماس بوبی نے عدالت سے درخواست کی کہ ان سب کے پوسٹ مارٹم نکلوائے جائیں۔ لیکن پاکستان کا وہ میڈیا جس کا ضمیر ہی جھوٹ پر ہے وہ اُردو خبر میں انہیں ’’خواجہ سرا کا قتل‘‘ لکھتا ہے اور انگریزی میں مزید آگے بڑھ کر اسے "Transgender Women Killed" ’’ٹرانسجینڈر عورت قتل کر دی گئی‘‘۔ یعنی ایک مرد اگر لباس، وضع قطع اور تراش خراش میں خود کو عورت بنا لے تو وہ انہیں خواجہ سرا کہتے ہیں جبکہ اصل میں وہ ایک "Transsexual" یعنی ہم جنس پرست زندگی گزارنے والا ہوتا ہے۔ ٹرانسجینڈر ایک عمومی اصطلاح ہے جس میں کئی طرح کے لوگ آتے ہیں، مثلاً ایک وہ جن کے پیدائشی طور پر جنسی اعضاء میں خرابی یا کمی ہو، انہیں مخنث، کُھسرا یا خواجہ سراکہا جاتا ہے۔ یہی اصل خواجہ سرا ہیں۔ دوسرے وہ جو خود کو خصی (Casteration) کروانے سے روپ دھارتے ہیں اور تیسرے وہ جو مکمل مرد ہوتے، مگر عورت کا روپ دھارتے ہیں۔ یہ دونوں ایک غلیظ اور حرام جنسی زندگی گزارنے کے لئے ایسا کچھ کرتے ہیں۔ ان بہروپئے ہم جنس پرستوں کو خواجہ سراء کا نام دے کر پاکستانی میڈیا پہلے ان کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی آڑ میں ایک گھنائونے ایجنڈے پر شوز کئے جاتے ہیں۔ ہر سال پاکستان میں ہزاروں مرد اور عورتیں مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ تمام قتل پاکستانی میڈیا کے لئے بہت کم ہی ہیڈ لائن نہیں بنتے۔ مگر اگر کہیں کئی سال بعد بھی ایک بہروپیا جس نے اپنے مخصوص ہم جنس پرستی کے جذبات کی تسکین کے لئے خواجہ سراکا روپ دھار رکھا ہو وہ قتل ہو جائے تو یہ لوگ پروگرام کرتے ہیں، ایک ماتم برپا کرتے ہیں۔ ٹرانسجینڈر ایکٹ جسے شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا، اس پر صرف دو اعتراض کئے گئے۔ ایک یہ کہ ایکٹ کا نام بدل کر ’’خواجہ سرا ایکٹ‘‘ کر دو اور دوسرا جیسے تمام مرد اور عورت شناختی کارڈ کے لئے ڈاکٹر کا تصدیق شدہ برتھ سر ٹیفکیٹ لاتے ہیں ویسے ہی ہر خواجہ سرا کے کارڈ کے لئے بھی میڈیکل سر ٹیفکیٹ ضروری ہونا چاہئے۔ طبّی معائنے کی اس ایک شرط سے وہ تمام بہروپئے ہم جنس پرست بھاگتے ہیں، مگر ٹی وی پر ان کے وکیل اینکر انہیں مسلسل مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کے میڈیا کی یہی تو منافقت ہے کہ دنیا بھر میں ہم جنس پرست "LGBT" کے نام پر کھل کر اپنے حقوق طلب کرتے ہیں اور اس کے لئے لڑتے مرتے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا ایک پیدائشی طور پر مظلوم اقلیت خواجہ سرا کے پردے کے پیچھے چُھپ کر اپنے مکروہ عزائم پورا کرتا ہے۔ پہلے یہ میڈیا صرف سوشل میڈیا اور چند ایک مخصوص نظریات والے اینکروں اور این جی اوز تک محدود تھا۔ مگر گذشتہ بیس سال سے عالمی طاقتوں کے فنڈز سے وجود میں آنے والی این جی اوز نے ایک میٹھے زہر کی طرح ہم جنس پرستی کے تصور کو کئی طریقوں سے چُھپا کر عوام کی رگوں میں اُتارا۔ دنیا بھر میں ہم جنس پرستوں کا سب سے مقبول نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی ہے‘‘ جس کو عورت مارچ کا مرکز و محور بنایا گیا اور پھر آہستہ آہستہ ٹرانسجینڈر کے نام سے ہم جنس پرست مخلوق کو بھی اس مارچ میں شامل کیا جانے لگا۔ آپ حیران ہوں گے عورت مارچ میں اصل خواجہ سرا شامل نہیں ہوتے تھے، بلکہ وہ ہم جنس پرست بہروپئے آتے تھے جو اصل میں مرد مگر خواجہ سرا کا روپ دھارے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جب خواجہ سرائوں کی نادرا میں رجسٹریشن کے لئے کہا تو ظاہر ہے میڈیکل معائنہ ضروری تھا اس لئے پورے ملک میں صرف چار ہزار خواجہ سرا رجسٹرڈ ہوئے تھے۔لیکن یہ این جی اوز لاکھوں کا دعویٰ کرتی پھرتی ہیں۔ این جی اوز کی مہم اور الیکٹرانک میڈیا میں ہمدردوں کی سرپرستی کے بعد ایک اور راستے سے بھی حملہ کیا گیا تاکہ عوام میں ہم جنس پرستی کو آہستہ آہستہ قابلِ قبول بنایا جائے۔ یہ فلم اور ڈرامہ ہے، جس کے ذریعے ایسے بہروپیوں کو قابل عزت (Glorify) کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ڈرامہ گذشتہ بیس سال سے اس ملک کے عوام کی اخلاقیات سے کھیل رہا ہے۔ مقدس رشتوں کے آپس میں عشق کی داستانیں مسلسل ڈراموں میں دکھائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ہم جنس پرستی کو ڈھکے چُھپے طریقے سے ہی دکھایا جاتا تھا۔ پاکستان میں ثانیہ سعید کا دو عورتوں کی آپس میں محبت کا ڈرامہ دراصل بھارت میں 1996ء میں بننے والی شبانہ اعظمی کی فلم ’’فائر‘‘ کی طرح معاشرتی اخلاقیات کے برعکس ہم جنس پرستی کو تکریم دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت میں تو کیا ہندو عیسائی اور کیا سکھ، مسلمان سب نے اس فلم پر احتجاج کیا اور سنسر بورڈ نے اس پر پابندی لگا دی بلکہ آج ایسی پندرہ فلموں پر وہاں پابندی لگائی جا چکی ہے۔ لیکن پاکستانی ڈرامہ خاموشی سے گزر گیا۔ یہاں سے حوصلہ لیتے ہوئے اب اس موضوع پر ایک بے باکانہ فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ بنائی گئی ہے۔ جس طرح پاکستان کے ٹرانسجینڈر ایکٹ کا علم اس وقت ہوا جب اسے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے نگہبان انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے اسے ایشیاء بھر میں ہم جنس پرستوں کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا۔ اسی طرح اس فلم کا بھی ڈنکا ،اس وقت بجا جب اس فلم کو ہم جنس پرستی "LGBT" پر بنائی جانے والی فلموں کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا جسے ’’کوئر پام‘‘ (Queer Palm) کہا جاتا ہے۔ اس فلم کی کہانی پر پہلے ہی بہت کچھ کہا اور لکھا گیا اور جس کی وجہ سے اس پر پاکستانی فلم سنسر بورڈ نے پابندی لگا دی۔ مگر عالمی سیکولر، لبرل لابیز کا دبائو اتنا تھا کہ اس پر نظرثانی کے لئے وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ کمیٹی میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس فلم کی باریکیوں کو سمجھے۔ فلم شادی شدہ مرد کے ایک ٹرانسجینڈر کے ساتھ جنسی رومانس کے گرد گھومتی ہے۔ ٹرانسجینڈر کو ایک مظلوم معاشرتی کردار کے حوالے سے ایسا تخلیق کیا گیا ہے کہ تمام ہمدردیوں کا محور وہی نظر آئے۔ میں نے سترہ سال پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامہ لکھا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کیسے کردار تخلیق کئے جاتے ہیں اور کیسے کسی سے نفرت پیدا کی جاتی ہے اور کیسے کسی منفی کردار سے محبت کا جذبہ اُجاگر کیا جاتا ہے۔ اُردو شاعری کا آدھا خزانہ ہم جنس پرستی کے اشعار پر مبنی ہے لیکن وہ آج تک صرف کتابوں میں محفوظ ہے۔ کیا کبھی کسی نے اسے وہ کورس کا حصہ بنایا۔ کیا میرتقی میرؔ کے ہم جنس پرستی کے اشعار گائے گئے۔ کیا ان شاعروں کے ہم جنس پرست معاشقوں پر فلمیں بنیں۔ سب کو پتہ تھا کہ یہ روّیہ قابلِ عزت نہیں، معاشرتی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے والا ہے، اسی لئے آج تک کسی صاحبِ علم نے اس کو کبھی عام نہ کیا۔ یہی حال دنیا کے ہر ادب کا ہے۔ لیکن جوائے لینڈ آج آرٹ اور ادب کے نام پر ایک ایسے ہم جنس تعلق کو عزت دے رہی ہے جس پر اللہ کے عذاب آئے اور بستیاں اُلٹ دی گئیں۔ اگر بھارت میں فائر جیسی پندرہ فلمیں معاشرتی اخلاقیات کو تباہ کرنے کی وجہ سے طاقت کے زور سے روکی جا سکتی ہے تو پاکستان میں جوائے لینڈ کیوں نہیں۔ اقبالؒ نے خوب کہا تھا: تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم آج ایسے روّیے کو سُدھارنے کے لئے وعظ و نصیحت نہیں بلکہ عَصائے موسوی کی ضرورت ہے۔