پاکستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے خواب ہمارے کردار سے مختلف ہیں۔ ہم ایک انصاف پسند کرپشن فری ملک کے خواب دیکھتے ہیں لیکن ہمارے اپنے معاملات میں اس دیانت اور صداقت کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ ہم انقلاب تو لانا چاہتے ہیں لیکن اپنے معاملات کا قبلہ درست نہیں کرتے ۔ دو نہیں ایک پاکستان اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعت کے کارکن اپنے لیڈر کے نعروں کے پیچھے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں ۔ میرے نزدیک وہ اپنا قیمتی وقت ایک لاحاصل سرگرمی میں ضائع کررہے ہیں ۔اگرچہ یہ سیاسی کارکن اپنی جگہ ایک انصاف پسند پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں۔ کہ یہاں پر ایک عام آدمی کو انصاف ملے، کرپشن نہ ہو لیکن جب ان کے اپنے ذاتی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے اپنی ذاتی زندگیوں کے معاملات میں یہ نا تو اخلاقی اقدار کے حامل ہیں نہ دیانت دار ہیں۔ بساط بھر کرپشن بھی کرتے ہیں دوسروں کا حق بھی مارتے ہیں لیکن خواب ایک انصاف پسند اور کرپشن سے پاک ملک کے دیکھتے ہیں۔ کیا اس تضاد کے ساتھ آپ انقلاب لا سکتے ہیں۔ یہ سوال بہت سادہ سا ہے اور یہی تضاد ہم سیاستدانوں کے کردار میں دیکھتے ہیں۔ وہ سیاسی رہنما کسی بھی جماعت کے ہوں پیپلزپارٹی ، نون لیگ ، اور تحریک انصاف ،ان سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے سیاسی رہنما بہت خوبصورت باتیں کرتے ہیں۔وہ اپنی تقریروں ،اپنی گفتگو اور اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کے غریب کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پاکستان میں امن کے خواہاں ہیں، چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر امیر غریب کمزور اور طاقتور کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔ سرکاری دفاتر میں کام اصول کی بنیاد پر ہوں ۔کر پشن کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔اور یہاں اصول اور ضوابط کا دور دورہ ہو ۔ اس طرح سے ہو کہ کوئی شخص اثر و رسوخ استعمال کرکے دوسروں کا حق نہ مارسکے اور اگر ایسا ہو تو پھر ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ اتنا موثر ہو کہ ایسے شخص کا محاسبہ کیا جاسکے۔ پاکستان کا آئین ریاست کے تمام شہریوں کی جان و مال اور عزت کا محافظ ہو۔ امیر اور غریب کے درمیان جو خلیج حائل ہو چکی ہے وہ کم ہو جائے۔پاکستان کے غریب کو بھی اس کی اہلیت کے مطابق روزگار ملے۔ وہ معاشی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس کے معاشی حالات بہتر ہوں اور وہ بھی ایک آسودہ اور باعزت زندگی گزار سکے لیکن عملی میدان میں اعلی اخلاقی اور قانونی اقدار کی تمام باتیں نظریہ ضرورت کے چولھے میں راکھ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد وہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ طاقتور کے لیے قانون موم کی ناک بن جاتا ہے۔ وہ جدھر چاہے اس کو موڑ سکتا ہے۔ وہ چاہے تو عدالتی حکمنامے ہوامیں اڑائے۔عدالتیں بھی اس کی مقبولیت سے خوفزدہ اسے ریلیف دیتی نظر آتیں ہیں جو سلوک عدالتی احکامات کے ساتھ تحریک انصاف کے چیئرمین کرتے ہیں کیا کوئی عام آدمی اس کا سوچ بھی سکتا ہے۔ عمران خان پاکستان میں ایک مقبول لیڈر تو ہیں، لوگوں کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے ۔سب سے زیادہ بڑے جلسے اور بڑی ریلیاں عمران خان کرتے ہیں اور سچی بات ہے کہ ان کے مقابلے پر دوسری جماعتیں اتنا بھرپور پاور شو نہیں دکھا سکتیں۔ کیا وجہ ہے کہ پھر بھی ہمیں معاشرے میں ہر جگہ دھوکادہی، کرپشن، بد دیانتی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں وعدہ خلافی تو پاکستانیوں کی شناخت بن چکی ہے اور جھوٹ ہم بائی ڈیفالٹ بولتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے، فون پر آرام سے کہہ دیں گے کہ میں راستے میں ہوں ، حالانکہ اپنے دفتر میں بیٹھے آرام سے چائے پی رہے ہوں گے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے : وہ مومن نہیں جو جھوٹ بولے ،وعدہ خلافی کرے اور امانت میں خیانت کرے۔ یہ ساری برائیاں پاکستانیوں میں موجود ہیں۔ ایمازون کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایمازون نے 13 ہزار پاکستانیوں کے اکاؤنٹ دھوکا دہی کی بنیاد پر معطل کر دیے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہوگا کہ بیشتر اکاؤنٹ پاکستان کے دو شہروں کے رہائشیوں کے نکلے ۔انہیں فراڈ ریڈ زون قرار دیا ہے۔میں دانستہ ان دو شہروں کے نام نہیں لکھ رہی۔ جاننے کے خواہشمند گوگل کر کے یہ سٹوری پڑھ سکتے ہیں۔کیا یہ تیرہ ہزار پاکستانی ایک انصاف پسند اور کرپشن فری ملک کا خواب نہیں دیکھتے ہوں گے۔کرپشن میں پاکستان ہر سال ترقی کرتا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے تین سال رہی ۔انصاف اور کرپشن فری ملک کا جس قدر نعرہ لگایا گیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا کم از کم ملک میں کرپشن ختم ہو جاتی۔سرکاری دفتروں میں ایک عام آدمی اعتماد کے ساتھ جاتا اور اس کا کام بغیر رشوت دیے ہو جاتا لیکن صاحبو ایسا نہیں ہوا۔ اس واقعے کی راوی میری ایک صحافی دوست ہیں۔ وہ اوبر کار پر کسی تقریب میں جا رہی تھی۔ اوبر کا ڈرائیو رکچھ باتونی سا تھا ۔کہنے لگا میں تو عمران خان کا بہت بڑا حامی ہوں اور اس کے جلسوں میں جاتا ہوں کیونکہ وہ کرپشن سے پاک کرے گا۔ وہ یہاں انصاف کا نظام لائے گا۔ کوئی کسی کا حق نہیں مار سکے گا کوئی حرام کا پیسہ نہیں کھا سکے گا۔ میری دوست کہنے لگیں آپ پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں پھر آپ اوبر کیوں چلا رہے ہیں۔اس پر وہ ڈرائیور بڑے فخر سے کہنے لگا میں پڑھا لکھا ہوں۔ میں تو سرکاری ملازم ہوں۔بلوچستان کے شہر پشین میں میری سرکاری نوکری ہے ۔اچھا تو پھر آپ چھٹی پر آئے ہوئے ہیں۔ اوبر ڈرائیور ہنس کر بولا " بس جی چھٹیاں ہی سمجھیں، میں کونسا وہاں جاکے کام کرتا ہوں۔ بس آپس میں کچھ دے دلا کے ایسا سسٹم بنا لیا ہے کہ مہینے کے مہینے تنخواہ مل جاتی ہے اور کام بھی نہیں کرنا پڑتا۔میں اب یہاں رہ کے اوبر ہی چلاتا ہوں یہاں سے بھی کماتا ہوں وہاں سے بھی تنخواہ لیتا ہوں" یہ ہے وہ قول و فعل کا تضاد جس کے ساتھ پاکستانی ایک انصاف پسند اور ایک دیانت دار حکومت کی خواہش رکھتے ہیں۔