ایک بڑی خوبصورت چینی کہاوت ہے ’’جب میںبہو تھی تو مجھے ساس بُری ملی ۔ جب ساس بنی تو بہو بُر ی ملی‘‘ ساس اور بہو کے رشتے پر اس سے خوبصورت حقیقت بیانی پر مبنی اورکوئی بات میری نظر سے نہیں گزری۔ یہ واحد انسانی رشتہ ہے جس کی پیچیدگی پر سرار حد تک عجیب وغریب ہے کیونکہ یہ رشتہ صرف خون کی قربانی مانگتا ہے ۔ارمانوں کاخون ، خواہشات کاخون، محبتوں کاخون، ماضی اورمستقبل کا خون بلکہ ہر اس بات اورمنصوبے کا خون جو اس رشتے سے کسی نا کسی طرح منسلک ہوتی ہے ۔ لگتا یو ںہے کہ ساس اور بہو اگر کھاتی ہیں تو زہر کھاتی ہیں اور پیتی ہیںتو خون پیتی ہیں۔ ہر صاحب شعور جانتاہے کہ یہ صرف موضوع ہی نہیں بلکہ ہر ساس اور بہو کا مسئلہ ہے ۔ ہر چولہے کا فسادہے۔ ایک ناختم ہونے والی بھیانک لڑائی ہے ۔ یہ گھریلو دہشت گردی ہے جس کا انجام اُس کے آغاز سے بہتر نہیں۔ جس طرح فلسفے کے اندر آج تک خدا کائنات اور انسان کا باہمی رشتہ حل طلب ہے اسی طرح ساس بیٹے اور بہو کارشتہ بھی حل طلب ہے ۔ اگر ان تین کرداروں میں سے ایک بھی غائب کردیا جائے تو یہ مسئلہ ہی باقی نہیںرہتا ۔ مثلاً مغربی دنیا میں ساس اور بہو کا رشتہ یادوں سے محو ہوگیا ہے اور صرف شاہی خاندان تک محدود ہے جہاں ساس او ربہو کومجبوراً محل کے اندر ساتھ ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔مغرب میں یہ رشتہ اس وجہ سے ختم ہوگیا ہے کیونکہ اس ڈرامے کے دوبنیادی کردار یعنی ماں اور بیٹاہی غائب ہوگئے ہیں۔ جب بیٹا زندہ سلامت ہوتے ہوئے بھی جوانی میں ہی ماں کو داغ مفارقت دے کر غائب ہوجائے تو اس کے بعد وہ جس کل موئی کے پلے بھی پڑے ماںکی بلا سے۔ مسئلہ تو اس وقت جڑ پکڑتاہے جب مادر گرامی خود بے شمار گھروںمیںماری ماری پھر کر چاند سے بہو بیاہ کرلاتی ہے اور پہلی رات کی تاریکی چھٹتے ہی انکشاف ہوتاہے کہ بڑھاپے کی غلطی ایک جان لیوا غلطی تھی کیونکہ آنے والی بھی خیرسے ماں ہی بننے کے لئے تشریف لائی ہیں۔ ویسے بھی مغرب میںپہلے محبت اور پھر شادی کا رواج ہے۔ جب کہ مشرق میںاس کے بالکل الٹ ہوتاہے ۔ مغربی نوجوان چونکہ محبت پہلے فرماتاہے اور اکثر اس حد تک فرما جا تاہے کہ شادی کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔مشرقی اماں ہٹے کٹے مشٹنڈے بیٹے کو بھی ہمیشہ بچہ ہی سمجھتی ہے جبکہ بیوی اسے ایک ایسا ضدی شاگرد سمجھتی ہے جو ماں کو ماں کہنے سے باز نہیں آتا اوراس سبق کویاد نہیں کرتا جوماں کو ڈسنے اور بیوی کا زہر چوسنے سے شروع ہوتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے لیکن جو جنت بیوی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے ایک سیدھے سادھے مسلمان شوہر کیلئے اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ مسلمان چونکہ زیادہ دُوراندیش نہیںہوتا اس لئے روز مرہ کے کاروباری نقصان سے بچنے کو مستقبل کے منافع پر ترجیح دیتاہے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے توعقلمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ اب دیکھئے نا جس قابل رحم حالت میںبیوی شوہر نامدار کو اکثرملاحظہ فرماتی ہے اُس حالت میں اماں حضور نے فرزندارجمندکو تیس سال پہلے دیکھا تھا۔ اب یہ بیوی کا فرض ہے کہ وہ نادان سرتاج سے بار بار پوچھے کہ وہ بڑا ہوکر کیا بنے گا؟ کس چھری سے بہنوں کاخون کرے گا ؟ ما ں کا گلہ کیسے گھونٹے گا؟ اوریہ کہ بیوی سے کتنی محبت کرتاہے ؟ مرغی اپنی جان سے گئی اور صاحب کو مزہ ہی نہ آیا کے مصداق بیوی کبھی شوہر کُھل کر تعریف نہیںکرتی ہے۔ زندہ شوہر کی مدح اسکے ایمان کے ناقص ہونے کی دلیل ہے جبکہ ماں کے لئے اس کا چور اچکااورآوارہ بیٹا بھی لاکھوں میں ایک ہوتا ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب ہے جب ایک سیدھا سادا فرمانبردار قسم کا صاحب زادہ اُسی پرانی ماں کیلئے ایک دم ذلیل بن جاتا ہے جب وہ بیوی کو نوکرانی نہیں بلکہ بیوی سمجھنے کا ناقابل معافی گناہ کرتاہے ۔بڑی بڑی نذریں اتارنے اورمنتیں ماننے والی مائیں بھی اس گناہ عظیم کوبرداشت نہیں کرپاتیں۔ جس کے باعث تعویزگنڈوں ،دم درود اورجادوٹونے وغیرہ کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتاہے اور ساس یا بہو کاجن نکالنے کیلئے ایک ایسی بھیانک مخلوق کا سہارا لینا پڑتا ہے جسے عرف عام عامل بابا کہتے ہیں۔ جسطرح سانپ اورنیولا ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے یعنی ساس اور بہو ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتیں ۔ دونوں میںسے ایک کاختم ہونا کھیل کا ضروری حصہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سانپ اور نیولے کے کھیل میںایک کا طبعی خاتمہ ضروری ہے جبکہ ساس اوربہو کے کھیل میں ایک دوسرے کو زندہ رکھ کر مارا جاتاہے۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ان میںسانپ کون ہے اورنیولا کون ہوتاہے کیونکہ دونوںخواتین ڈبل پارٹ کھیلنے کی یکساںمہارت رکھتی ہیں۔ ویسے اس کھیل کو حقیقی رنگ دینے کیلئے ا ور بھی کامیاب مظاہرے شروع ہوگئے ہیں جن کے تواتر میںمسلسل اضافہ اس عقیدے کی غمازی کرتاہے کہ ’’ذرا غم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ اسی لئے کتنی مائیں موٹے تازے بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی دُور رہ کر مرجاتی ہیں ۔بعض اوقات تو ایک ہی شہر میںہوتے ہوئے بھی بڑھیا کسی اور کے ہاتھوںآخری آرام گاہ میںاتاری جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ کتنی جوان بہویں گیس کے چولہے کے آگے جل بھن بھی جاتی ہیں لیکن بہو خور ساسوںکی پیاس نہیں بھجتی اور فوراً دوسری بہو اور دوسرے چولہے کی تلاش شروع ہوجاتی ہے جو اکثر بد نصیب بہویں جہیز میں ساتھ ہی لیکر آتی ہیں ۔ ؎؎؎؎ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’لڑکیاں نیکیاں ہوتی ہیں اورلڑکے نعمتیں ۔نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور نعمتوںکاحساب لیا جائے گا‘‘ کاش ان دونوں خواتین کو یہ بات سمجھ میںآجائے کہ اپنے جس پیٹ پرانھیں فرزندارجمند پیدا کرنے پر فخر ہے اسی راہ سے مستقبل کی ساسیں اور بہویںبھی دھڑا دھڑ آتی رہتی ہیں۔ اگراس حقیقت کو مدنظر نہ رکھا گیا تو یہ دونوں آدم خور خواتین مسلسل ذلیل ورسوا ہوتی رہیں گیاور ساسوں کی تنومنداورچاک وچوبند اولا د نرینہ اور شوہر نامدار ہمیشہ زنانہ کاموں میںہی مصروف نظر آئیں گے۔ لیکن خیر ہمیں اس سے کیا۔ ناہم ساس ہیں اورناہی بہو۔ لیکن ہمارا اس سے واسطہ ضرور ہے کیونکہ ہم ہی تو وہ مایہ نازشخصیت واقع ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ساس وبہو کی یہ رنگا رنگ جنگ وجدل جاری ہے اورختم ہونے کا نام ہی نہیںلیتی ۔ بہر حال کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’ سساںمرن تے خوشی ناکرئیے ماواں وی مرجاناں‘‘ اگر بیٹوںکو نیکیاںاوربیٹیوں کونعمتیں نہ سمجھا گیا تو اپنی بیٹیوںکا پرائے گھروں میںوہی حشر ہوگا جواپنے گھروںمیںپرائے بیٹوں کاہوتاہے ۔کیوں ؟ اسلئے کہ وہ کہرام ہمیشہ مضحکہ خیز ہوتاہے جو اپنے گمشدہ صاحب زادے کے لئے مچایا جائے تاکہ ساتھ والے گھرکی آہ وفغاں اس میںگم ہوسکے جسے ماتمی گھرانے نے اغواکررکھا ہے۔ خداہمارا حامی وناصر ہو۔آمین۔