اسرائیل فورسز کی جانب سے غزہ میں خوفناک بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور وہ غزہ کے اسپتالوں ، اقوام متحدہ کی محفوظ پناہ گاہوں اور امدادی کارکنوں پر بھی فضائی حملے کر رہا ہے۔ غزہ کے الاہلی ہسپتال پراسرائیلی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں 800سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ، بمباری میں ہسپتال کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں آگ لگ گئی ، ملبے تلے سینکڑوں افراد دب گئے ، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ہسپتال ہزاروں زخمیوں ،مریضوں اور بے گھر فلسطینیوں سے مکمل بھرا ہوا تھا ، شہداء میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کے متعدد ارکان شامل تھے الاہلی ہسپتال غزہ کے ان ہسپتالوں میں شامل تھا، جسے اسرائیلی فوج نے خالی کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی ۔ انسانی تاریخ کا کوئی دور جنگوں کے حالات اور انسانوں کے باہمی اختلافات سے خالی نہیں اور انسان کی یہ کوشش بھی ہمیشہ رہی ہے کہ جنگ و جدل اور اختلاف کو کچھ حدود و قیود کا پابند کیا جائے لیکن ہمیشہ ہی اخلاقی ضابطوں اور قوانین کو پامال کیا گیا اور ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا گیا ،جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں. اسلام نے آکر انسانیت کوجنگ و جدل کے اصول و ضوابط اورحدود پابند بنایا اورمسلمانوں نے ہمیشہ ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاس رکھا ہے اور لازوال مثالیں قائم کیں۔ بین الاقوامی طور پر بھی امن و سلامتی کیلئے مختلف نوعیت کے معاہدات اور کنونشنز موجود ہیں،جن میں مختلف قوانین کو ترتیب دیا گیا لیکن ہمیشہ ہی ان قوموں نے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی ۔ الاہلی ہسپتال پر حملہ کرکے اسرائیل نے جارحیت نے تمام حدود پامال کر دی ہیں ، جس کی پاداش میںنیتن یاہو اور اس کی انتظامیہ پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات درج ہونے چاہیئں ۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا تو امریکہ نے افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر اس نے ہسپتالوں پر بمباری نہیں کی لیکن اسرائیل نے ہسپتال کو بھی نہیں بخشا اور سینکڑون افاد کو اپنی بر بریت کی بھینٹ چڑھا دیا ۔بین الاقوامی مروجہ قانون اور بین الاقوامی معاہدات کی رو سے جنگی قوانین اور ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی کو جنگی جرائم سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر لائبر کوڈ کے مطابق یہ جنگی قوانین کی سنگین پامالی تھی کہ فاتح حکومت مفتوحین کو اپنی خدمت پر مجبور کرے اور ممنوعہ تشدد کو روا رکھے۔ اسی طرح قتل و غارت گری، ناروا سلوک، سول آبادی یا مفتوحہ علاقے کی تباہی وبربادی ، جنگی قیدیوں اوریرغمالیوں کے قتل، لوگوں کی جائیدادوں کی لوٹ مار، شہروں ، قصبوں اوردیہاتوں کی تباہی و بربادی جنگی جرائم میں شامل ہیں۔ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کے لیے تو اب تابوتوں کی بھی قلت ہو چکی ہے۔فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والوں پر ہر وقت موت کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔فلسطینی بچوں،بوڑھوں ،جوانوں اور خواتین کی حالت زار کو دیکھ کر انسان کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اسرائیل نے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے ہسپتالوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ شام کی جنگ میں شمالی حلب میں بشار حکومت اور روسی طیاروں نے ہسپتالوں اور کلینکوں پر بمباری کی تھی۔انسانی حقوق کی ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق شام میں 5 برسوں میں کم از کم 730 ڈاکٹر جاں بحق ہوئے تھے مگر یہاں تو ایک ہی حملے میں آٹھ سو افراد کو شہید کر دیا گیا ہے ۔حالات سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مستقبل قریب میں امن معاہدہ ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی لیکن مقبوضہ اور دیگر علاقوں میں فائر بندی کی اشدضرورت ہے۔فائر بندی کروانے کے لیے امریکہ ،یورپی یونین اور برطانیہ کو اسرائیل پر اپنے پورے اثرورسوخ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔اسرائیلی افواج نہتے فلسطینیوں پر چڑھائی کے بعد سے زیادہ سے زیادہ شہری اہداف کو فضائی حملوں اور توپوں سے گولہ باری کا نشانہ بنا رہی ہے اور اسرائیل اس جنگ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کو اسرائیل کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی باقاعدہ تفتیش کرنی چاہیے کیونکہ ایسی مناسب وجوہات موجود ہیں، جن کی بنا پر یہ چھان بین شروع کی جا سکتی ہے۔بین الاقوامی سطح پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے تعین کے لیے طے شدہ معیارات موجود ہیں اور جنگی جرائم کو انسانیت کے خلاف جرائم سے گڈ مڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جنگی جرائم کی تعریف یہ ہے کہ کسی تنازعے میں بنیادی انسان دوست قوانین کی سنجیدہ خلاف ورزیاں کی جائیں۔جنگی جرائم کی یہ تعریف 1949ء کے جنیوا کنوینشن کی روشنی میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے اپنے اطالوی دارالحکومت روم کے ضابطے میں کر رکھی ہے۔ اس کی بنیاد اس نظریے پر رکھی گئی ہے کہ کسی ملک یا فوج کے اقدامات کے لیے انسانوں کو انفرادی طور پر جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے نسل کشی کی روک تھام اور تحفظ کے ادارے کے مطابق جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں واضح تفریق کی جانا چاہیے۔ جنگی جرائم کی قانونی تعریف کے مطابق ان کا ارتکاب کسی داخلی تنازعے یا دو ممالک کے مابین جنگ میں کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس نسل کشی یا انسانیت کے خلاف جرائم ایسے اقدامات ہیں، جن کا ارتکاب زمانہ امن میں بھی ہو سکتا ہے۔اسرائیل کے ایسے غیر منصفانہ اور مجرمانہ اقدامات اور اعمال کی فہرست بہت طویل ہے، جنہیں جنگی جرائم قرار دیا جا سکتا ہے۔عالمی برادری ،انسانی حقوق کی تنظیموں اوراقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسرائیل کو ایسے گھنائونے جرائم سے روکنے میں کردار ادا کر یں ۔