سفر بھی ایک طرح کا مراقبہ ہے۔ مراقبہ جو آپ کی روح سے انتشار بھری مصروفیات کی گرد اتار کر آپ کو یکسوئی کے سکون سے مالامال کرتا ہے۔ وہ سفر جو خالصتاً آپ خود کو وقفہ دینے کے لیے کرتے ہیں کسی مراقبے سے کم نہیں ہوتا۔ مری کے قریب ایک گاؤں کھجوٹ کے گھنے جنگل میں پہاڑ پر واقع یہ ایک سرکاری ریزارٹ تھا۔ میں یہاں پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک پرسکون مراقبے سے گزر رہی تھی۔ پہاڑ پر بنے ہوئے پی ٹی ڈی سیکے اس ہل ٹاپ ریزارٹ میں ہمیں آئے دوسرا دن تھا۔ قدرتی حسن میں ڈوبی ہوئی صبح تھی، تا حد نظر ایک کوہستانی سلسلہ ۔ اور ان پر دیودار چیڑ اور پھلاہی کے درختوں کے پھیلے ہوئے گھنے جنگل تھے۔ جنگلی کاسنی پھولوں سے لدی ہوئی جھاڑیاں دیکھ کر ایسا لگتا اونچائی اور اترائی کے اس وسیع سبز کینوس پر کاسنی رنگ کے چھینٹے پڑے ہیں۔ اور ہم شہر سے آئے ہوووں کو کچھ ایسا گمان گزرتا گویا یہ کوہستانی سلسلہ ہمارے دل تک آگیا ہے ۔ جنگلی پھولوں کی صورت یہ کاسنی رنگ کے چھینٹے سیدھے ہمارے دامن دل پر پڑ رہے ہیں۔ خوبصورت بالکونیوں سے سجے ہوئے برآمدے میں ناشتے کے بعد ہم کھلی فضا میں باہر آکر بیٹھ گئے۔ شہروں کی پرزور گہما گہمی سے دور فطرت کی گود میں چند روز گزارنے کے لیے آنے والے مہمانوں کی تواضع کا یہاں پورا انتظام تھا۔یہ کوئی روایتی طرز کا ہوٹل نہیں تھا۔رہائش کیلیے کمرے پہاڑ پر اس طرح بنائے گئے تھے کہ ان پر قدیم زمانے میں پڑھی ہوئی کسی کہانی میں پہاڑیجھونپڑی کا گمان ہوتا۔اس جنگل میں رات بہت پراسرار اور قدیم راز کی طرح یہاں آنے والوں کے دل پر اترتی تھی ایک جانب مری ایکسپریس وے تھی تو دوسری جانب گھنے جنگل کے بیچوں بیچ اونچے نیچے ایسے کچے راستے جن پر کسی کے قدم ابھی نہیں پڑے تھے۔ ایسا ہی ایک راستہ اس ریزارٹ کے سامنے اوپر چڑھائی کو جاتا جس کے ایک طرف گھاٹی تھی اور اس میں گھنا جنگل پھیلا تھا۔دوکو ہستانی بچے سدھائے ہوئے گھوڑے کے ساتھ آنے والے مہمانوں کو گھڑ سواری کی پیشکش کر رہے تھے۔ اب دانیال گھوڑے پر سوار تھا اس کی عمر سے دو چار سال کے فرق سے بڑے دو کوہستانی بچے اسی کچے راستے پر گھوڑے کے ہمراہ تھے۔ ایک بچہ باتونی تھا بولا آپ ان پہاڑوں پر دور سے آتے ہیں۔مگر ہم پہاڑوں پر خوش نہیں ،یہاں سردیاں بہت مشکل گزرتی ہیں۔لکڑی گیلی ہوتی ہے چولہا نہیں جلتا۔ شہروں کی طرح یہاں گیس نہیں ہوتی۔ دوسرا بچہ جھٹ سے بولا :باجی یہ جھوٹ بولتا ہے ہم بہت خوش ہیں۔ کیا ایسا موسم شہروں میں ہوتا ہے؟مجھے اس پہ بہت پیار آیا ۔بہت ساری مشکلات کے باوجود اس نے اپنی جگہ اور اپنے وطن سے محبت کا کھل کر اظہار کیا۔تم ٹھیک کہتے ہو بیٹا شہروں میں ایسا موسم کہاں ؟جنگلی پھولوں کی باس میں مہکی ہوئی ہوا ہم شہریوں کو نصیب نہیں۔ یہ سچ ہے کہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں لوگ بہت مشکل سے زندگی گزارتے ہیں۔اسی راستے پر مجھے شاندانہ ملی ،چھوٹی سی بچی گود میں اٹھائے میکے کے گاؤں سے پیدل چلتی ہوئی اپنی بہن کے ہمراہ اپنے گھر واپس آرہی تھی ۔پہاڑ کی اترائیوں اور چڑھائیوں پر چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں ۔بیشتر لوگ میلوں کا سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ بچے دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزر کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ اعلی تعلیم کے مواقع بہت محدود ہیں۔کچھ جماعتیں پڑھ جانے والے نوجوان یہاں کے ہوٹلوں میں ویٹر بننے پر مجبور ہیں۔اس کی عمر ایسے ہی تھی جیسے کالج کی سطح پر کسی طالب علم کی ہوتی ہے۔صاف ستھری پینٹ شرٹ اور ٹائی لگائے ہوئے وہ ویٹر تھا ۔بھاپ اڑاتی چائے کے کپ اس نے میز پر رکھے۔ایف اے پاس تھا اور بی اے کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ اسے سمجھایا بیٹا خالی خولی بی اے کرنے سے تمھیں کیا فائدہ ہوگا ۔ اس ڈگری سے نوکری نہیں ملے گی نہ معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ ڈیجیٹل سکل سیکھو ،انٹرنیٹ پر کام کرنا سیکھو، انٹرنیٹ کا کوئی ہنر سیکھ لو گے تو اپنے گاؤں میں بیٹھ کر بھی پوری دنیا سے جڑ جاو اور بہتر پیسے کما لو گے۔پھر ایک کاغذ پر اسےDigiskills ویب سائٹ کا پتہ لکھ کر دیا اور کہا کہ اسے دیکھو اور یہاں کسی کورس میں خود کو انرول کرواو۔ صبح سویر ے اٹھتے ہی مجھے چائے کی طلب محسوس ہوئی۔ میں کمرے سے باہر نکلی، رات دیر تک پہاڑ کے دامن میں لوگ بیٹھے رہے ، سو اتنی صبح باہر کا ماحول خاموشی میں ڈھلا تھا۔ ایک ویٹر کمروں کا راؤنڈ لے لیتے ہوئے نظر آیا۔ اسے آواز دی، ٹی بیگ والا کپ دیا اور کہااس میں ابلتا ہوا پانی ڈال کے لادے۔ وہ میٹرک پاس سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا، یہاں اس کی نئی نئی نوکری تھی۔اسے بھی سمجھایا اور وعدہ لیا کہ وہ ڈیجیٹل ہنر ضرور سیکھیے گا۔ تمہارے پاس سمارٹ فون موجود ہے تو تم اپنے آپ کو انٹرنیٹ سے متعلق کسی ہنر سے آراستہ کرو۔ تمھیں آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کی آنکھوں میں عزم اور حوصلے کی ایک چمک ابھری، وہ بولا میں کسی کورس میں داخلہ ضرور لوں گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سلیقے سے کپ ٹرے میں رکھ کر لے آیا ۔ میں چائے کا گرما گرم کپ لے کے اپنے کمرے کی بالکونی میں آگئی جس پر دیودار کے درختوں کے گھنیرے سائے تھے۔ دوسری طرف انار سے لدے ہوئے درخت کی شاخیں بالکونی تک آگئی تھیں۔ ایکسپریس وے پر اکا دکا گاڑیاں تھیں۔ ہوا چیڑ کے درختوں سے ٹکر ا کر مجھ تک پہنچتی تھی اور نظر دور تک ایک گہرے سبز منظر سے لپٹتی رحمٰن ورحیم کی صناعی پر سجدہ ریز ہوتی۔ خشک دودھ میں بنی چائے میں آج کچھ سوا ذائقہ تھا ۔کھجوٹ کے جنگلی پھولوں کی مہک ہر گھونٹ میں گھلی میرے اندر اتر رہی تھی۔