غالباًسال 2011ء کی بات ہے کہ جب ہمارے ایک موجودہ وفاقی وزیر کے امریکہ میں زیرِ تعلیم صاحبزادے نے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ فیس بک پر چیٹ کے دوران پاک فوج کے بارے میں کچھ تضحیک آمیز خیالات کا اظہار کیا تھا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان آرمی پر ’ڈو مور‘ کے لئے دبائو شدید تر تھا۔نام نہاد’جمہوریت پسندلبرلز ‘کا گروہ جو سلامتی کے ادارے کو مغربی عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا تھا، جڑیں پکڑ رہا تھا۔صاحبزادے کی پوسٹ پر عوامی رد عمل آیا تو پوسٹ ہٹا دی گئی۔ بعد ازاں، وزیرِ موصوف نے صاحبزادے کی پاک فوج سے ناراضگی کی توجیح پیش کرتے ہوئے اپنی وال پراکتوبر 1999ء کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تفصیلی جواب لکھا کہ جس کا لُب لباب یہ تھا کہ’جن بچوں نے وردی پوشوں کو اپنے گھر کی دیواریںرات کے اندھیرے میں پھلانگتے اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا ہو اُن کے لاشعور میں چھپی تلخ یادوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کے دل ودماغ کی کیفیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ 1977ء کے انتخابات بھٹو صاحب کی پارٹی نے بھاری اکثریت سے جیت لئے۔ تاہم اپوزیشن نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مذاکرات آخری مرحلے میں تھے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بھٹو صاحب گرفتار ہو گئے۔تین ماہ کے اندر انتخابات منعقد کروانے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کئے جانے کا وعدہ کیا گیا۔ رہائی کے بعد بھٹو صاحب لاہور ایئر پورٹ پر اترے تواستقبال کیلئے باہر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا۔ انتخابی جلسے جلوسوں کا آغاز ہو گیا۔پیپلز پارٹی سے ہمدردی کے علاوہ میرے والد مرحوم کی ہمارے حلقے کے امیدوار کے ساتھ پرانی یاد اللہ بھی تھی۔اس امیدوار کے حق میں ایک جلسہ منعقد ہو نا طے پایا تو مجھے بارہ تیرہ سال کی عمر میںاس جلسے کے آغاز میں خصوصی طور پر تقریر کرنے کے لئے منتخب کیا گیا ۔جلسہ ہوا تو جیسے تیسے میں نے ’قائدِ عوام‘ اور جمہوریت کے حق میں ایک رٹی رٹائی تقریر کر دی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ عوام کا جوش و خروش صاف بتا رہا تھا کہ بھٹو صاحب اقتدار میں واپس لوٹیں گے۔ بھٹو صاحب کو بھی غالباََ اس بات کا پورا ادراک تھا۔ چنانچہ بہت سی اور باتوں کے علاوہ مقبولیت کے زعم میںفوجی حکمران سے متعلق ایک نا مناسب جملہ اُن کی زبان سے نکل گیا۔روایت ہے کہ خان عبدالولی خان صاحب نے فوجی حکمران کو پشتو کا ایک محاورہ سناتے ہوئے سمجھایا کہ اب ’ قبر ایک ہے اور مُردے دو‘۔بہت سے دیگر عوامل بھی پیشِ نظر ہوں گے، تاہم ’مثبت نتائج ‘ کے حصول کیلئے انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ دوسری طرف قومی اتحاد کے اکابرین کی طرف سے’ پہلے احتساب پھر انتخابات‘ کا مطالبہ بھی سامنے آگیا ۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے مزاحمت شروع ہوئی توپکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔سینکڑوں کارکنوںکو جیلوں میں ڈالاگیا تو بے شمار عقوبت خانوں میں بھیجے گئے۔ تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کو ٹکٹکیوں پر باندھ کر کوڑے مارے گئے۔ اخبار خالی صفحوں کے ساتھ شائع ہونے لگے۔ایک روز کہیں سے کان میں پڑی کہ مارشل لا ء حکام کی فہرستوں کے مطابق پیپلز پارٹی کے نامزد کارکنوںکے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے جلسے میں کی گئی میری ایک چھوٹی سی تقریرکا حوالہ دیتے ہوئے کسی نے ہمارے متعلق بھی بے پر کی اڑا دی۔ والد صاحب نے گھر میںتسلی دی کہ جو بھی ہو سو ہو، عورتوں اوربچوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ باوجود اس تسلی کے، کئی دن میں نے ایک ہمہ وقت خوف کی کیفیت میںگزارے۔ انسانوں کے ذہنوں پر بسا اوقات کئی بظاہر معمولی دکھائی دینے والے واقعات ہمیشہ کے لئے رقم ہو جاتے ہیں۔ سوچتا ہوں چالیس پنتالیس برس کے بعد بھی پکڑ دھکڑ کے اُن دنوں کا احساس آج میرے ساتھ ہے ، اگر خدا نخواستہ بات چادر اور چاردیواری تک آجاتی تو کیا ہوتا؟گزشتہ دنوں کے دوران سامنے آنے والی ویڈیوز دلخراش ہیں۔لگ بھگ ایک ڈیڑھ عشرہ پہلے وزیرِ موصوف کی فیس بک پرلکھی گئی تحریر اِن دنوں مجھے انہی کی حکومت میں یاد آرہی ہے۔اگرچہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ وزیرِ موصوف کو اب خود اپنی بات بھی یاد ہے کہ نہیں۔بات کی اصابت بہرحال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ جن گھروں کی دیواریں رات کے اندھیروں میں پھلانگی جائیں،مردوں کو بچوں کے سامنے ماراپیٹا جائے، عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے،مجرم اور بے گناہ میں فرق مٹا دیا جائے توخوف سے بے بسی اور بے بسی سے جنم لینے والی نفرت متاثرہ خاندانوں کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے۔نو مئی والے دن جو ہوا دلوں کو کاٹتے ہوئے گزرا ہے۔ جلی ہوئی عمارتوں کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ ہر عمارت اور ٹوٹا ہوا مجسمہ جائے عبرت ہے۔ ایک سانحہ ہے۔قابلِ مذمت ہے اور ایک قومی نقصان ہے۔ تاہم اس قومی نقصان کا ایک دوسرا پہلو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان رہیں یا نہ رہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ کئی برسوں تک پاکستان کا کوئی مڈل کلاس گھرانہ اپنے بیوی بچوں سمیت اب کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کے لئے گھروں سے باہرہی نہ نکلے۔ پُرامن مظاہروں میں تودور کی بات، خدشہ یہ ہے کہ اب جلسوں میں بھی عام گھرانوں کی خواتین آنے سے گھبرائیں گی۔ قصور وار کوئی بھی ہو، لاکھوں کی تعداد میں پڑھے لکھے با شعور پاکستانی اگر یوںاپنے خول میں واپس چلے جاتے ہیں تو کسی طور پر بھی یہ جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارا ادارہ زخم خوردہ ہے۔ تاہم کسی بھی حلقے کی طرف سے بھی اس امر کو محدود گروہی یا سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا جانا خود غرضی کے ساتھ کوتاہ نظری کا تاثر پیدا کرے گا۔ کور کمانڈر کانفرنس اور بعد ازاں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیئے میں جہاں قومی غم و غصے کا بھرپور اظہار موجود ہے، تو وہیں بات چیت کے ذریعے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کہ جن کے ہاتھوں میں اس وقت قوم کی تقدیر ہے، اس دوراہے پر تاریخ کے لئے کیا ورثہ چھوڑتے ہیں۔ مجرموں کو کٹہرے میں لانا اُن کی ذمہ داری ہے، تاہم آگ کو ہوا دینے کی بجائے بڑھکتے شعلوں کو بجھانا بھی انہی کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔معیشت دھوپ میں پڑی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔آئی ایم ایف سیاسی افراتفری کو جواز بنا کرٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ مغربی حکومتیں اگرچہ ہمارے سیاسی معاملات سے بوجہ لاتعلق نظر آرہی ہیں، تاہم66 ارکانِ کانگرس کی جانب سے اظہارِتشویش جیسے واقعات کو ہمارا دشمن مستقبل میںعالمی سطح پر ہمارے سفارتی مقدمات کو کمزور کر کے استعمال کر سکتا ہے ۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ افراد کی طرح قوموںکا بھی حافظہ، یادیں، یادداشتیںاور پچھتاوے ہوتے ہیں۔