کبھی کبھی جی چاہتا ہے ،سب کچھ وہیں ٹھہر جائیں جہاںہے۔ پیچیدگی مزید پیچیدہ نہ ہو،حالات مزید کشیدہ نہ ہوں۔مسلسل رونما ہونے والی سیاسی و عدالتی خبریں مزید جنم نہ لیں۔ صدرکوئی مراسلہ بھیجیں نہ الیکشن کمیشن کوئی وضاحت کرے، گورنر عدالت جائیں نہ کوئی نیا بنچ بنے۔کوئی ایک شخص دوسرے کو ڈاکو کہے نہ دوسرا پہلے کو چور۔کوئی دوسرے کومعاشی تباہی کا ذمہ دار قرار نہ دے،ڈیفالٹ کرنے کی خبریں تھم جائیں۔جی چاہتا ہے سب آنکھیں بند کریں اور لمبی لمبی سانس لیں۔ جب آنکھ کھولیں توطوفان تھم چکا ہو۔ چونکہ اب ہمارے ہاں یہ ممکن نہیں رہا تو اس ہنگامے میں وقفہ لینے کا ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ انسان خودایک دو دن کے لیے اس شور سے دور ہو جائے، خود اپنی آنکھیں بند کرے اور تصور کرے کہ جیسے کہیں کوئی ہنگامہ ہو ہی نہیں رہا۔ اس کے لیے میں نے ’’روٹین بریک‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو میرے دوست صدیق جان کو بہت پسند آئی۔ ہفتے کی سہ پہر میں نے صدیق جان کو ساتھ لیا اور اسمعیل آفریدی کی دعوت پہ خیبر پختونخواکے ضلع خیبر چلا گیا،ڈاکٹر خالد شریک میزبان تھے جنہوں نے محفل سجانے اور دل لبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ضلع خیبر پہلے خیبر ایجنسی ہوا کرتا تھا جو فاٹا کا حصہ تھا اور یہاں باقی چھ ایجنسیوں کی طرح ایف سی آر کا قانون چلا کرتا تھا، اب یہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے۔ضلع خیبر پشاور سے ملحقہ علاقے جمروو سے شروع ہوتا ہے اور طورخم بارڈر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں خشک پہاڑوں کا غیر منقطع سلسلہ ہے جو پھر افغانستان تک چلا جا تا ہے۔ وسیع تاریخ کی حامل تحصیل لنڈی کوتل بھی اسی ضلع میں واقع ہے۔ لنڈی کوتل ایک زمانے میں سیاحتی مرکز ہوا کرتا تھا۔یہیں ایک تاریخی ریلوے اسٹیشن بھی موجود ہے۔2006 تک یہاں سیاحوں کے لیے سفاری ٹرین چلا کرتی تھی ۔یہ ٹرین خیبر کے وسیع و عریض پہاڑی سلسلے کے بیچوں بیچ خراماں خراماں گزرتی تو سیاح عش عش کر اٹھتے، یہ ٹرین کبھی پہاڑ کے اوپر چڑھ جاتی اور کہیں کبھی کسی ٹنل میں گھس جاتی۔ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کے یہان درجنوں ٹنلز بنائی گئیں ہیں جہاں پٹری اب بھی موجود ہے۔2006 میں سیلاب آیا تو سفاری ٹرین کی یہ پٹری ٹوٹ گئی اور سیاحت روٹھ گئی۔ ہماری حکومت انگریز دور کی بنائی گئی یہ پٹری بحال بھی نہ کر سکی اور محض پٹری بحال نہ ہونے سے ٹنلز کا پورا نظام تباہ و برباد ہو کے رہ گیا۔گویا انہوں نے سیاحت کے لیے پہاڑوں کے سینے تک چیر ڈالے اور ہم سیلاب سے متاثرہ پٹری کی بحالی کا کام بھی نہ کر سکے۔ لنڈی کوتل ہی میں وہ تاریخی چھائونی ہے جو انگریز نے بنائی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح یہاں تشریف لائے تو ان کے زیر استعمال اشیاء کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔ نہرو، جارج بش، لیڈی ڈیانا،سچن ٹنڈولکر اور ان جیسی کتنی ہی نامور شخصیات یہاں کا دورہ کر چکی ہیں۔ یہاں وہ کمرہ بالکل اسی حالت میں رکھا گیا ہے جہاں 1993 میں شہزادی لیڈی ڈیانا نے قیام کیا تھا۔یہ کمرہ ڈیانا کے لیے محض ارٹالیس گھنٹے میں تیار کیا گیا تھا اور آج بھی ویسے کا ویسا رکھا ہے۔ اسمعیل آفریدی اور ان کے مقامی دوست صدیق صاحب ہمیں بھی یہ چھائونی دکھانے لے گئے۔اسی چھائونی کے وسیع لان میں ایک اخروٹ کا درخت بھی ہے جسے زنجیروں میں جکڑکر رکھا گیا ہے۔گرفتار کیے گئے اس درخت کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔سن 1893 کی ایک شام ایک انگریز کمانڈر شراب کے نشے میںجھوم رہا تھا۔ کیفیت بڑھی تو کمانڈر کو درخت جھومتا ہوا دکھائی دیا۔ کمانڈر نے درخت کو ساکت ہو جانے کا حکم دیا۔ درخت نے بات نہ مانی تو ماتحت کو بلا کر اس درخت کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ تب سے اب تک یہ درخت بڑی بڑی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ خطہ خیبر بے پناہ روایات کا امین ہے۔ یہاں کے اپنے مخصوص کھانے ہیں، اپنے رسم و رواج ہیں اور مہمان نوازی کے اپنے طور طریقے۔ ہمارے میزبان دوستوں نے پہاڑوں کے بیچوں و بیچ بہتی ندی کے کنارے ایک خوبصورت محفل کا اہتمام کیا۔ ہمارے ہاں دور تک پیدل چل کے جانے والی ایسی دور افتادہ جگہ پر پکنک منانے کے لیے ایک چادر بچھا کے کام چلایا جاتا ہے مگر یہاں سروں پہ اٹھا کے قالین اور گاو تکیے لائے گئے اور ندی کے کنارے یوں بچھائے گئے جیسے کوئی دربار لگنے والا ہو۔ محبت کے اظہار کا یہ طریقہ دل جیت لینے والا تھا۔ یہیں مہمانوں کے لیے دنبے کی چانپوں کے تکے بنائے گئے اور روایتی طریقے سے روش تیار کیا گیا۔ کسی کھانے میں نمک کے سوا کوئی مصالحہ استعمال نہ کیا گیا تھا لیکن لذیذ ایسا کہ بس کھاتے چلے جائیے۔ ہمارے میزبان روایتی موسیقی رباب اور طبلے کا اہتمام کرنا نہ بھولے۔ رباب بجتا تو ہمارے آفریدی بھائی جھوم جھوم جاتے۔ آفریدی قبیلہ خیبر کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔شاہین شاہ آفریدی بھی خیبر ہی کے ایک چھوٹے سے علاقے کے رہنے والے ہیں۔ چلتے چلتے ہمیں شاہین آفریدی کا محلہ دکھایا گیاجہاں سے کرکٹ کا آغاز کر کے انہوں نے دنیا بھر میں نام کمایا۔ یہاں کے نوجوان کرکٹ اور فٹ بال بہت شوق سے کھیلتے ہیں ۔ فٹ بال کی قومی ٹیم میں یہاں کی نمائندگی ہمیشہ رہتی ہے۔ یہ نوجوان کھیلوں سے محبت کرنے والے ہیں،موسیقی سے لطف اٹھانے والے ہیں،وطن سے محبت کرنے والے ہیں، سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں۔ آجکل مگر ملک کے سیاسی حالات پہ افسردہ و رنجیدہ ہیں۔بار بار ہم سے سوال کرتے کیا ہونے والا ہے، عمران خان کے لیے فکر مند دکھائی دیتے۔ کہتے ہم نے ماضی میں سکیورٹی کے نام پہ بہت قربانیاں دیں مگر پھربھول بھال کے عمران خان کے ساتھ اگلے سفر پہ نکلے ۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے صحیح نہیں ہو رہا ہے۔ قومی لیڈر کا ہمیشہ یہی فائدہ ہوتا ہے ، سب کو جوڑ کے رکھتا ہے، ناراض لوگوں کو منا لیتا ہے۔انہیں اگلی منزل دکھاتا ہے ، ان کے غم بھلاتا ہے۔ مگر اب ہم نے محسوس کیا ہے کہ کوئی بے چینی سے بے چینی ہے۔