منطق اور تاویل میں شعوری ناپیدگی ہمارا المیہ بن چکی، مسائل کے حل کا کوئی آرزو مند نہ رہا، شہرت کے خوگر پرورش پا گئے اور آئینہ کالی ڈائن کی مانند خوفناک ہوگیا۔ بجلی مزید 1.90 روپے فی یونٹ مہنگی کردی گئی، قیمتوں میں اضافے کا اطلاق جولائی کے ماہ کے بلوں پر ہوگا، منطق اور تاویل کی اس دھند میں غریب اور متوسط طبقہ درد دل والوں کو کہاں ڈھونڈے؟ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا! آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا بوجھ بے بس اور لاچار کب تک اٹھائے گا؟ یہ معمہ آئی ایم ایف تک محدود نہیں، پڑھتے جائیں شرماتے جائیںِ درآمدی ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت، خاص طور پر ایل این جی، جو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایل این جی کی قیمت ایک سال کے اندر 8 ڈالر سے بڑھ کر 42 ڈالر تک پہنچ گئی، ایل این جی اسپاٹ پرچیزنگ کے لیے دستیاب نہیں ہے، چین مشرق وسطی میں تعلقات مضبوط کر چکا، ایران سعودی عرب تعلقات میں مثبت پیش رفت جاری ہے تو پھر ہم امریکہ کی روس دشمنی کا خیمازہ کیوں بھگتیں؟ جو یوکرائن جنگ سے ایل این جی کی قلت کی صورت میں یورپ اور امریکی اتحادیوں کو درپیش ہے۔ کیا فقط روس سے 45 لیٹر ہزار تیل کی درآمد پر اکتفا کافی ہے؟ بھارت کی تجارتی اور سفارتی حکمت عملی سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مادر وطن میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ کار، جو نیپرا کو ایندھن کی قیمتوں میں تبدیلی کی بنیاد پر بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی اجازت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں 1 روپے 90 پیسے اضافہ کردیا ہے، کیا سستے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی کمی، جیسے کہ شمسی اور ہوا، جو مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کر سکتی ہے، اس پر عمل 75 سال بعد بھی ناممکن ہے جبکہ خود نیپرا تسلیم کرتا ہیکہ سستی بجلی گرین فیول کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ حیرت ہے: پاور سیکٹر کی ناقص گورننس اور انتظام کی وجہ سے خسارے اور گردشی قرضے بڑھیں اور خیمازہ عوام اور معشیت بھگتے! پاور سیکٹر کا اصل مسئلہ بیڈ گورننس ہے, جسے حل کرنے کی ضرورت ہے, ان عوامل کے نتیجے میں ماہرین اکتوبر 2023ء تک پاکستان میں بجلی کا ٹیرف 24.8 روپے فی یونٹ تک پہنچنے کا امکان ظاہر کر رہے تھے اور ہم جولائی میں ہی تجاوز کر چکے، شومئی قسمت!!!، حالیہ ٹیرف 2019-20 ء میں بجلی کی اوسط قیمت سے تقریباً دوگنا ہے، اس سے صارفین اور ملکی معیشت پر بھاری بوجھ پڑ رہا ہے، کاروبار تباہ ہوچکے، عام پاکستانی اجڑ گیا اور دعویٰ معاشی انقلاب کاہے۔ مادر وطن میں ہنگامی بنیادوں پر اس زہر قاتل صورتحال سے نمٹنے کیلئے مناسب حکمت عملی پر عمل کرنا ہوگا۔ پاکستان میں نیپرا متعدد مرتبہ تسلیم کرچکاہے کہ ملک کے پاور سیکٹر کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی زیادہ قیمت ہے, جس کے کئی اسباب ہیں مثلاً: بجلی مہنگی ہونے کی سب سے اہم وجہ وہ بجلی ہے جو بجلی گھروں میں پیدا تو ہوتی ہے لیکن اسے استعمال نہیں کیا جاتا، البتہ اس کی ادائیگی لازمی ہے، جسے کیپیسٹی پیمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ پرانے اور ناکارہ پاور پلانٹس، گردشی قرضوں کا پہاڑ، ترسیل اور تقسیم نظام کی خرابیاں، نامناسب منصوبہ بندی، بے انتظامی بھی بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے اسباب میں شامل ہیں۔ پاکستان میں ایک جانب بجلی کی کھپت مختلف ممالک کی اوسط کھپت سے کہیں کم بتائی جاتی ہے تو دوسری جانب اس سے معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس وقت بجلی پیدا کرنے کے بڑے ذریعوں میں پن بجلی، آر ایل این جی، کوئلہ، جوہری بجلی گھر، فرنس آئل، گیس اور دیگر شامل ہیں، ان ذرائع میں سے سستی بجلی کا بڑا ذریعہ پن بجلی کی پیداوار ہے، لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ یہ طویل مدت منصوبے کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے اور ہمارے لیے 75 برس مختصر ٹھہرے!! پن بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومت دیا میر بھاشا ڈیم 4500 میگاواٹ نصب شدہ صلاحیت، مہمند ڈیم 800 میگاواٹ نصب شدہ صلاحیت اور ان جیسے دیگر منصوبوں پر کام مکمل کر سکتی ہے لیکن ان کی تعمیر مکمل ہونے کے آثار نعروں کی گونج تک محدود ہیں۔ پن بجلی کے منصوبے اس رفتار سے بڑھانے ہوں گے کہ ہماری سالانہ پانچ سے چھ فی صد طلب پوری کی جاسکے، قدرتی گیس بھی سستا ذریعہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کے باوجود نیک نیتی سے کام کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔ دنیا میں سستے ذریعہ متبادل توانائی میں شمسی توانائی، ہوا اور بائیو گیس سے بجلی کا حصول شامل ہے۔ ان منصوبوں پر کام ہو سکتا ہے اب تک مگر متبادل توانائی سے چھوٹے پیمانے پر ہی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم طلب کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ملک میں بجلی کی مجموعی قیمت پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کی اہم وجہ گردشی قرضے بھی ہیں۔ لہذا آئی ایم ایف اسے اپنی شرائط میں جواز بناتا ہے۔ نیپرا ماضی میں اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کر چکا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے ذریعوں کی دو بڑی اقسام ہیں؛ پہلی قسم میں وہ ذریعے آتے ہیں؛ جن سے بجلی کی پیداوار میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے, ان میں پن بجلی، ہوا، شمسی اور بھوسے سے پیدا شدہ بجلی شامل ہے، دوسری جانب روایتی طریقہ کار سے بجلی پیدا کرنے والے تھرمل بجلی گھر ہیں، آر ایل این جی، کوئلے، گیس، ایٹمی اور خام تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کا شمار اس قسم میں ہوتا ہے۔ ان سے بالترتیب 12 اور 27 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، لیکن پورے سال ان سے حاصل کی جانے والی بجلی کی اوسط 41 اور 45 فی صد بنتی ہے، اب اس مسئلے کا حل کب اور کس نے نکالنا ہے؟آئی ایم ایف گردشی قرضے کم کرنے پر زور دیتا ہے اور نقصانات سب کے سامنے ہیں، بجلی کے مسئلہ کا حل معمہ نہیں، بس منطق اور تاویل میں شعوری ناپیدگی ہمارا المیہ بن چکی۔ مسائل کے حل کا کوئی آرزو مند نہ رہا، شہرت کے خوگر پرورش پا گئے اور آئینہ بھایک ڈائن کی مانند خوفناک ہوگیا۔