کراچی کی معروف دینی درس گاہ جامعتہ الرشید کے وزٹ کے حوالے سے اپنے پچھلے کالم میں تفصیلات بیان کر چکا ہوں۔ متاثر کن دورے کے بعد جامعتہ الرشید کے سربراہ مفتی عبدالرحیم صاحب سے ملاقات ہوئی تو پہلا سوال یہی کیا کہ آپ نے یہ سب کیسے کر دکھایا اور اس حوالے سے روایتی دینی حلقوں میں مزاحمت ہے تو اس پر کیا ردعمل ہے؟ مفتی عبدالرحیم صاحب نے سوال کے پہلے حصے کا جواب مسکراہٹ سے دیا، صرف اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ کو جب کام لینا مقصود ہوتا ہے تو ہم جیسوں سے بھی کام لے لیا جاتا ہے۔ سوال کے دوسرے حصے کے جواب میں وہ سنجیدگی سے بولے ، ’’ہم نے کبھی مزاحمت یا مخالفت کی طرف توجہ ہی نہیںدی، ممکن ہے ایسا کچھ تاثر ہو ،مگر ہم اسے نظرانداز کر کے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہماری جامعہ سے وابستہ ہر فرد پر پابندی ہے کہ وہ جواب دے گا نہ دوسروں پر تنقید کرے گا۔ہم البتہ دوسروں کی مدد کے لئے اوپن ہیں۔ جو مدرسہ ہماری طرح کا کمبائن سسٹم بنانا چاہتا ہے، ہم اسے ہرلحاظ سے معاونت، رہنمائی، مدد دینے کو تیار ہیں۔‘‘ مفتی عبدالرحیم صاحب کا طرززندگی سادہ ہے، روایتی بزرگوں والا حلیہ۔ سادہ سفید شلوار قمیص ،سر پر ایک سفید رومال سا لیا ہوا، پائوں میںنرم چپل ، چمکدار آنکھیں اور خندہ رو چہرہ۔خاص بات ان کی صاف گوئی اور برجستگی لگی۔ کسی بھی سوال پر انہوں نے ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ گفتگو اس قدر مرتب اور منضبط تھی کہ حیرت ہوئی۔ برجستہ جواب اور یوں تراشے ہوئے فقرے جیسے ان پر گھنٹوں غور کیا گیا ہو۔ مجھے خیال تھا کہ شائد وہ بعد میں زیادہ تر گفتگو آف دی ریکارڈ قرار دے دیں۔ آخر میں پوچھا تو مفتی عبدالرحیم نے رسان سے کہا ، ’’میری طرف سے ایک جملہ بھی آف دی ریکارڈ نہیں۔‘‘ ایسے پرآشوب زمانے میں اتنا اعتماد اور بے نیازی کسی متوکل اور بڑے مضبوط انسان ہی میں ہوسکتی ہے ۔ ان کے کمرے میں ایک سٹریچر نما بستر رکھا تھا۔ کہنے لگے کہ میں نے بہت زیادہ سفر کئے ہیں، افغانستان میں بہت عرصہ رہا، وہا ں چپہ چپہ گھوما ہوں، مسلسل سفر کے باعث کچھ طبی مسائل پیدا ہوگئے، کمر میں تکلیف رہتی ہے تو کئی میٹنگز بستر پر لیٹے ہوئے اٹینڈ کرنا پڑتی ہیں۔وزٹ کے دوران جامعتہ الرشید کے مختلف شعبوں کے نوجوان ساتھیوں سے غیر رسمی گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ سب مفتی صاحب کے مداح ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد جی کی ہر شعبے پر گہری نظر رہتی ہے، اندازہ ہے کہ کون کیا اور کیسا کام کر رہا ہے ۔ اہم بات یہ کہ دل کھول کر سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جامعتہ الرشید کے بانی مفتی رشید احمد لدھیانوی (مرحوم ) تھے۔مفتی عبدالرحیم نے بیس سال کا عرصہ مفتی رشید احمد کے ساتھ بطور معاون گزارا۔ مفتی رشید احمد نے انہیں اپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا،’’ میرا ان کے ساتھ کوئی رشتہ داری یا خاندانی تعلق نہیں ہے، میں نے انہیں طویل عرصہ اچھی طرح ٹھونک بجا کر پرکھ لیا ہے، اس لئے یہ ذمہ داری انہیں سونپ رہا ہوں۔‘ ‘یہ ماننا پڑے گا کہ مفتی عبدالرحیم اس اعتماد پر پورا اترے۔ مفتی رشید احمد بعض حوالوں سے خاصا سخت اور ٹھیٹھ موقف رکھتے تھے ۔ وہ مدارس میں انگریزی تعلیم کے مخالف تھے ۔بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے آخری برسوں میں اپنے انگریزی مخالف موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ جامعتہ کے سسٹم میں انگریزی مفتی رشید احمد کی زندگی ہی میں در آئی تھی، انہوں نے اس کی اجازت دے دی تھی۔ مفتی عبدالرحیم صاحب سے گفتگو میں اندازہ ہوا کہ وہ حکمت اور سلیقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بتدریج اصلاحات لانے کے حامی ہیں۔ایک دو سوالات کے جواب میں نرمی سے یہ کہا کہ ہم اس طرف جائیں گے، مگر بتدریج ۔میں نے موجودہ حالات کی خرابی کے حوالے سے سوال پوچھا اور ان کی رائے جاننا چاہی۔ مفتی عبدالرحیم مزاجاً غیر سیاسی آدمی لگے ۔ وہ ٹکرائو، تصادم وغیرہ سے بچ کر اپنے تعلیمی پراجیکٹس پر ہی فوکس کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ بیان کیا، کہنے لگے،’’ نبوت کا دروازہ تو ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے، اب مسلمانوں کے لئے ریاست کی اہمیت بہت بڑھ چکی ۔ نبوت کے بعد اب ریاست ہی اہم ترین چیز ہے، اس لئے اسے ہر حالت میں مستحکم رہنا چاہیے ۔ ‘‘ اس بات پر چونک گیا۔ دینی حلقوںمیں اتنی مضبوطی اور توانائی کے ساتھ ریاست کے استحکام کی بات سننا اہم لگی۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ مفتی رشید احمد مرحوم کی بھی یہی رائے تھی۔ وہ ریاست کی اجازت اور منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی کے حامی نہیں تھے۔ ایک اور بات انہوں نے بتائی کہ افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کے تجربے کے بعد مفتی رشید احمد لدھیانوی کو اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے بنانے کی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا تاکہ اعلیٰ صلاحیت والے مردان ِکار پیدا کئے جا سکیں۔ طالبان حکومت میں یہی مسائل تھے کہ تب ان کے پاس ماہرین نہیں تھے، سب کچھ ہوا ہی میں معلق تھا، کسی بنیاد کے بغیر۔ اسی وجہ سے مفتی رشید احمد نے جامعتہ الرشید پر توجہ دی ۔ پاکستان کے موجودہ خراب معاشی حالات اور گورننس کے مسائل پر مفتی عبدالرحیم بڑے متردد اور مضطرب لگے۔ بار بار انہوں نے یہ بات دہرائی کہ حالات سنبھالنے چاہئیں، ورنہ خدانخواستہ نزاع کی حالت طاری ہوسکتی ہے۔ کہنے لگے،’’ اب پاکستان میں سب سے زیادہ کرائسس مینجمنٹ پر بات اور بحث ہونی چاہیے ۔ حالات اس قدر پریشان کن ہیں کہ بیک وقت سہہ جہتی حل کی طرف جانا ہوگا۔ شارٹ ٹرف ایکشن پلان، لانگ ٹرم پلان اور میڈیم ٹرم پلان۔کم وقت میں ہمیں بہت زیادہ کرنا ہوگا۔حل ایک ہی ہے کہ سب اپنے ذاتی مفادات ترک کر کے اکھٹے ہوجائیں۔ ‘‘ سیاسی پولرائزایشن کی طرف اشارہ کیا تو وہ متفکر نظر آئے۔ کہنے لگے کہ اب ہمارے پاس غلطیاں کرنے کی گنجائش نہیں ، ملک کی خاطر سب کو اکھٹا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے تھنک ٹینکس بنانے کا مشور ہ بھی دیا جہاں اہم ایشوز پر ریسرچ کر کے حل ڈھونڈے جائیں۔ بتایا کہ ہم نے اپنے طور پرجامعہ میں تھنک ٹینک بنا رکھا ہے ۔ میں نے فرد کی اصلاح کا طریقہ پوچھا تو کہنے لگے ، تین ہی سطحیں ہیں، ریاست، سماج اور فرد۔ ہمارے دین نے تینوں کے لئے واضح طور پر ہدایت نامہ اور احکامات دئیے ہیں۔ سب کچھ سامنے ہی موجود ہے۔ ایک فرد کو اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے، کیا عبادات، معاملات اور حقوق العباد ہوں ؟ اسی طرح سماج کو کس طرح زندہ رہنا، آپس میں کیسے پیش آنا ہے جبکہ ریاست کا کردار بھی واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیرت رسول ﷺ ہی اصل کلید ہے۔ اسے پڑھتے رہیں، اسے ہی فالو کریں۔ سب کچھ اسی میں موجود ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی رجحانات کا ذکرآیا۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا،’’ الیکٹرانک میڈیا ہمارے اندر موجود عیوب سکرین پر لے آیا۔ یہ سب پہلے سے موجود تھے، ٹی وی چینلز نے صرف اسے بے نقاب کیا جبکہ سوشل میڈیا نے ہمارے اندر کی نفرتوں، کدورتوںاور عدم برداشت کو ایکسپوز کیا ۔دراصل دنیا بھر میں کوئی بھی نئی چیز آئے تو اسے طریقے سے دیکھ بھال کر قبول کیا جاتا ہے۔ ہم نے بلاسوچے سمجھے یہ سب کچھ اپنا لیا تو اب ان کی وجہ سے بے پناہ مسائل بھی بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ ‘‘ میں نے آخر میں دو تنقید ی سوال پوچھے ، ایک یہ کہ ہر مسلک کے مدرسے سے اسی مسلک کی خالص پراڈکٹ کیوں برآمد ہوتی ہے؟ لوگ اچھا مسلمان بنانے کے لئے دینی مدارس میں بچے بھیجتے ہیں، وہ اپنے مسلک میں ڈھال کر باہر نکالتے ہیں۔ مجھے خاصی حیرت ہوئی جب اس سوال پر دفاع کرنے کے بجائے مفتی عبدالرحیم نے صاف کہا ، بھائی ہر فیکٹری وہی بناتی ہے جس کی مشینری لگی ہو۔ جب بیشتر مدارس میں مشینری اور پورا سپورٹ سسٹم اسی مسلک کا ہے تو پراڈکٹ بھی اسی مسلک میں رنگی ہوگی۔ میں نے حیرت سے کہا، آپ نے تو الزام مان لیا ہے۔دھیرے سے جواب دیا، میرے انکار سے چیزیں بدل تو نہیں جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ جامعتہ الرشید کے بورڈ میں کسی مسلک کے نام کے بجائے کتاب وسنت سے تعلیم کی شق شامل کی گئی ہے۔ میرا آخری سوال تھا کہ بعض لوگ تنقید کرتے ہیں مدارس میں ہونے والے کسی برے یا ناخوشگوار واقعے کا مدارس کے زعما کھل کر مذمت کرنے کے بجائے اس پر خاموشی اختیار کرتے ہیں یا کبھی لیپا توپی کی روش اپنائی جاتی ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب نے اس کا بھی دفاع تو نہیں کیا،وہ کسی حد تک اس بات کو مان رہے تھے ، مگر ان کے خیال میں اس کی کئی وجوہات ہیں اور دینی حلقوں کی نزاکت اور حساسیت بھی لوگوں کو سمجھنی چاہیے۔ کہنے لگے ’’دینی مدارس کے خلاف معمولی سی بات بھی طوفان بن جاتی ہے، ہر وقت کوئی نہ کوئی مہم چلتی رہتی ہے۔اسی لئے مدارس والے زیادہ محتاط اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دینی مدارس کے ذمہ داران برائی کے خلاف کچھ نہیں کرتے، وہ اپنے طور پر کارروائی کرتے ہیں ،مگر ان سے آپ مذمتی پریس ریلیزوں کی توقع نہ کریں اور ایسا کرنا غیر منطقی ہوگا۔ کسی کے گھر میں ناخوشگوار واقعہ ہو تو اس کا سدباب کیا جاتا ہے، گھر والے لائوڈ سپیکر پر اعلان تو نہیں کریں گے۔‘‘