جدید تعلیمی ادارے،یونیورسٹیاں اور دانشگاہیں مختلف ریسرچ پراجیکٹ کے ذریعے درپیش مسائل اور اہم امورپر غوروخوض کے لیے تحقیقی منصوبے تشکیل دیتی ہیں،جس کا بنیادی مقصد نئے نتائج کی دریافت ہوتاہے۔اس ضمن میں مخصوص سوالات،بات چیت، گفت و شنیدیا کسی پروفارما کی مدد سے مختلف ڈیٹا اکٹھا کرکے ، اس کا تجزیہ کیا جاتا اور مطلوبہ نتائج اخذکیے جاتے ہیں ۔ اس طرح کی بعض منظم تحقیقات’’کیس اسٹڈی‘‘ کے طور پر بھی عمل میںلائی جاتی ہیں، ایسا ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)، امریکہ کی مشہور زمانہ ہارورڈ یونیورسٹی اور اوقاف ڈیپارٹمنٹ نے مل کر کیا،جس کا بنیادی مقصد اور موضوع:۔’’عقائد اور انسانی طرز عمل کی تشکیل میں خطباتِ جمعہ کا کردار‘‘ تھا،موضوع بھی ازحد دلچسپ تھا اور اس ریسرچ پراجیکٹ کی پارٹنر شپ بھی، لمز ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں بھی جدید تر ہے اورہارورڈ تو دنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹی ہے،جس کے پاکستانی سٹوڈنٹ احسن رانا ، اس ریسرچ پراجیکٹ کا حصّہ تھے ۔ اس ضمن میں ایک سمپوزیم لمز میں بھی ہوا ، جس میں خطباء اور آئمہ نے شرکت کی اور پھر ان یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس نے مساجد اور مدارس کا بھی وِزٹ کیا ۔ گزشتہ کئی صدیوں سے مسجد ہماری سوسائٹی کا نیوکلس ہے ۔ہماری گروتھ اور نشوونما میں اِس ادارے کا بڑا کلیدی کردار ہے ۔ چند دہائیوں قبل تک تو ہماری روایت یہی تھی کہ تین ، چار سال کی عمر کے بچے کا اوّلین تعلق مسجدہی سے استوار ہوتا، جس کا نقش ساری زندگی اس کے قلب و نظر میں جاگزیں اور ذہن میں تازہ رہتا ۔ قرآنِ پاک کی ابتدائی تعلیم سے لے کر دین کے مبادیات سیکھنے تک، یہ تعلق از حد معتبر اور سودمند تھا، نائن الیون اور افغان وارکے نتیجے میں دہشت اور وحشت نے ہماری بہت سی روایات و اقدار کو متاثر کیا،جس میں سب سے زیادہ منفی اثرنسلِ نو کے مسجد کے ساتھ تعلق پر پڑا،جوتقریباً معدوم ہی ہوگیا۔اس سروے اور ریسرچ پراجیکٹ میں بڑے دلچسپ اور فکر انگیز سوالات بھی اُٹھائے گئے،جن کے جوابات سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج بھی ہماری سوسائٹی ، مسجد کے امام اور خطبہ جمعہ کے حوالے سے کس قدر حساس اور الرٹ ہے ۔ مثلاً سروے کے ذریعے ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ آپ کیسے فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ نے نمازِ جمعہ کہاں ادا کرنی ہے ۔ یعنی آپ محض اپنی قریبی مسجد کو ترجیح دیتے ہیں یا مخصوص خطیب کو،مطلب یہ کہ مسجد قریب تر ہے اور رسم پوری کرنے کے لیے جاکر جمعہ پڑھ لیا یا کسی اچھے سکالر اور عالم کے پیچھے جا کر نماز اداکی ، تو 61فیصد لوگوں نے امام اور خطیب صاحب کو ترجیح دی اور 39 فیصد نے محض لوکیشن کو ۔ یعنی اچھا خطیب اور امام آج بھی مقتدیوں کی ترجیح کا حصّہ ہے ۔ ایک اور دلچسپ پہلو جو اس سروے کے ذریعے سامنے آیا ، وہ یہ کہ اسلام کے بارے میں معلوما ت کے لیے کونسا ذریعہ ، آپ کی زندگی میں اہمیت اور اعتماد کا حامل ہے ۔ مسجد ، سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا، تو میرے قارئین کو یہ جان کر سخت حیرت ہوگی کہ 72 فیصد لوگوں کا جواب مسجد اور محراب و منبر تھا ، جبکہ 26 فیصد سوشل میڈیا اور محض 2 فیصد نے الیکٹرانک میڈیا پر اعتماد کیا ، جس کو میں ذاتی طور پر بڑا انکر یج کرتا ہوں۔ دراصل اس تحقیقی پراجیکٹ کے مبادیات میں اس امر کا کھوج لگانا بھی مقصود تھا کہ پنجاب میں کلی کتنی مساجد ہیں ؟یہ مساجد کہاں کہاں واقع ہیں ---؟ان میں روزانہ اوسطاً کتنے لوگ نما ز پڑھتے ہیں ؟جمعہ کی نماز میں کتنے لوگ شامل ہوتے ہیں ؟خطبہ کتنے لوگ سنتے ہیں اور کیا وہ اس کا کوئی اثر بھی قبول کرتے ہیں ؟ اس سے کیا ان کا طرز ِ عمل بھی تبدیل ہوتا ہے اور کیا مرد حضرات، خطبات میں سنی ہوئی باتیں ،اپنے اہلِ خانہ سے شیئر کرتے ہیں ؟اسی طرح محکمہ اوقاف کی مساجد کہاں کہاں واقع ہیں ---؟ان میں اوسطاً کتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں اور امام صاحب کی باتوں کا کس حد تک اثر قبول کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں ایسی 19مساجد کا انتخاب کیا گیا ، جو رہائشی علاقے میں ہوں ، ان مساجد میں 158 نمازیوں کو اس سروے کا حصّہ بنا یا گیا اور پھر مزید یہ کہ ان میں سے 40نمازیوں کے اہلِ خانہ کو اس سروے میں شامل کیا گیا ۔ خواتین سے سروے یا تو بذریعہ ٹیلی فون ہوئے یا طالبات نے ان سے خود رابطہ کیا اور پھر مسجد کے رہائشی علاقے میں دو سروے کیے گئے، ایک کسی خاص موضوع پر خطبہ دینے سے قبل اور دوسرا خطبہ دینے کے بعد ، ان خطبات میں سے ایک کا موضوع:۔’’پڑوسیوں کے ساتھ حُسن ِ سلوک‘‘بھی تھا ، اس ضمن میں خطیب صاحب کو خطبے کے لیے تحریری مواد بھی فراہم کیا گیا تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرکے بہتر پرفارم کرسکیں ۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق، اہلِ خانہ کے ساتھ حُسنِ سلوک ، خواتین کی تعلیم کی اہمیت ، ان کی معاشی سرگرمیوں میں شرکت اور ان کی ملازمت کی اہمیت وغیرہ۔ یہ سروے محکمہ اوقاف کے تعاون سے ہوا، جس میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ آف سائنسز کی طرف سے 23 فیصد ، جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی نے 77 فیصد وسائل فراہم کیے ۔ سروے کے مطابق خطیب صاحب کے گزشتہ جمعہ کے خطبے کے فیڈ بیک کے مطابق 82 فیصداہل ِ محلہ اور نمازیوں نے خطیب صاحب کے گزشتہ جمعہ کا بیان سُنا ، جبکہ صرف 18 فیصد کا جواب منفی میں تھا کہ انہوں نے یہ بیان نہیں سُنا۔ سروے ٹیم نے پوچھا کہ کیا آپ نے امام کا گزشتہ جمعہ کو دیا گیا خطبہ اپنے اہل ِ خانہ تک پہنچایا ؟مردوں میں سے 46 فیصد نے اس کا جواب ہاں میں،جبکہ 54 فیصد نے اس کا جواب ناں میں دیا ، جبکہ 43 فیصد عورتوں نے اس امر کی توثیق اور 57 فیصد نے اس اَمر کی تردیدکی ۔ کیامقتدی نے خطیب صاحب کے خطبہ کے موضوع کی صحیح شناخت کی ؟تو مردوں میں سے 93 فیصد نے مثبت جبکہ 7 فیصد نے منفی جواب دیا ، اسی طرح عورتوں نے 79فیصد مثبت جبکہ 21فیصد منفی جواب دیا۔ اس سروے میں ، یہ امر بھی خوشگوار طور پر سامنے آیا کہ کسی سماجی موضوع پر موثر خطبہ جمعہ کے بعد، اس عنوان کی بابت لوگوں کی سوچ اور طرزِ عمل کے حوالے سے موثر اور مثبت تبدیلی آئی ۔ پنجاب کا محکمہ اوقاف ، اس اعتبار سے بڑا خوش قسمت ہے کہ ان کے ساتھ ایک ہزار آئمہ /خطباء کی گراں قدر اسٹیبلشمنٹ موجودہ ہے ، جو روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل ، بین المذاہب مکالمے کی ترویج اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے ایک ہراول دستہ ہے ۔ نیز سوسائٹی کو درپیش مختلف نوعیت کے چیلنجزجیسے کوویڈ19، ڈینگی اور منشیات وغیرہ کے حوالے سے اس فورم کے موثر استعمال سے گراں قدر نتائج برآمدہوچکے ہیں ۔ مختلف نوعیت کی میڈیائی یلغار اور سوسائٹی کے نت نئے چلن اپنی جگہ ---لیکن مسجد اور محراب و منبر ، آج بھی سوسائٹی میں اپنا ایک منفرد اور موثر مقام رکھتا ہے۔علماء اور خطباء کو اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے،اس فورم کی فعالیت کو موثر اور معتبر رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔سماجی اہمیت کے حامل موضوعات کو خطبہ جمعہ کاموضوع ضرور بنانا چاہیے ۔ تازہ مطالعہ ، عمدہ اسلوبِ اظہار اور موثروخُوش کن شخصیت سے سوسائٹی میں، ان کے رسوخ میں مزید اضافہ ہوگا۔