ایک زمانے میں سیاسی جماعتیں الیکشن کے لئے باقاعدہ منشور بناتی تھیں اور اس کے لئے خاصی عرق ریزی کی جاتی ۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کئی مہینوں تک منشور پر کام کرتے۔ عوامی خواہشات، امنگوں اور پارٹی کی پالیسیوں کومدنظر رکھتے ہوئے منشور اور مرکزی ایجنڈا بنایا جاتا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے وقت بھی پارٹی منشور پر خاصا غوروخوض کیا گیا اور پھر چار نکاتی ایسا مرکزی ایجنڈا بنایا گیا، جس پر 1970ء کے الیکشن کی پوری مہم استوار کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ دانشور اور مفکر جے اے رحیم نے یہ منشور بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چار نکات تھے:’’ اسلام ہمارا دین ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ سوشل از م ہماری معیشت ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘‘ سوشلزم والے نکتہ پر بڑے ہنگامے بھی ہوئے۔ مولانا کوثر نیازی نے ڈیمیج کنٹرول کے لئے ایک نئی اصطلاح نکالی، اسلامی سوشلزم ۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی جو سوشلسٹ نظام لائے گی، وہ اسلام سے ہم آہنگ ہوگا اور اسلامی سوشلزم کہلائے گا۔ خیر بعد میں بے نظیر بھٹو کے دور میں یہ تیسرا نکتہ پارٹی منشور سے نکالا تو نہیں گیا، مگر عملی طور پر تمام تر پالیسیاں کیپیٹلسٹ اکانومی کے مطابق بنائی گئیں۔ نجکاری کی گئی اور کنٹرولڈاکانومی کی جگہ لبرل اکانومی کو ترجیح دی گئی۔ بھٹو صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں ایک سادہ اور پرکشش نعرہ لگایا، روٹی، کپڑا، مکان۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستانی عوام کو یہ تینوں بنیادی ضرورتیں فراہم کروں گا۔ ان کے دور میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہوا ۔ روٹی تو کیا ملنی تھی، البتہ پکی پکائی روٹی کے پلانٹ لگائے گئے ، کہا گیا کہ یہ روٹی ہے۔ وہ پلانٹ بھی فیل ہوگئے ۔ نوے کے عشرے میں بھی اسلامی جمہوری اتحاداور پھر مسلم لیگ اور پی پی کی کشمکش میں دونوں اطراف سے انتخابات میں منشور پرکسی حد تک دھیان دیا جاتا رہا۔ رفتہ رفتہ ان پر توجہ اور فوکس کم ہوتا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں شائد سب سے زیادہ دھیان جماعت اسلامی منشور پر دیتی ہے۔ اس حوالے سے ان کے ہاں سال بھر ہی کام جاری رہتا ہے۔ وہ باقاعدہ سے منشور کا پمفلٹ چھاپتے اور تقسیم بھی کرتے ہیں۔ 2018میں تحریک انصاف نے بھی منشور پر توجہ دی اور کئی بلند وبانگ دعوے اور نعرے لگائے۔ ان میں احتساب اور لوٹا ہوا اربوں ڈالر سرمایہ واپس لانے کے ساتھ ساتھ پانچ برسوں میں ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھر بناکر دینے کا وعدہ بھی شامل تھا۔ یہ غیر حقیقی اہداف تھے۔ ہماری معیشت میں دس لاکھ گھر ہر سال بنانے کی سکت ہی شائد نہیں اور بیس لاکھ ملازمتیںسالانہ فراہم کرنا بھی بڑا دعویٰ تھا۔ اسد عمر تب تحریک انصاف کا دماغ سمجھے جاتے تھے، وہ ٹاک شوز میں اس کا دفاع کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مجبوری بھی ہے کیونکہ بیس لاکھ نوجوان ہر سال مارکیٹ میں آ رہے ہیں تو ان کے لئے ہر سال ملازمت پیدا کرنا ریاست کی مجبوری ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں بعد میں تحریک انصاف کے لئے گلے کا کانٹا ثابت ہوئیں۔ وہ ایسا نہیں کر پائے اور مسلسل طنز اور تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔عمران خان دور میں اخوت کی مدد سے البتہ سات یا دس ہزار گھر بنائے تھے جن کے لئے حکومت کی جانب سے آسان قسطوں پر رقم فراہم کی گئی۔ پچاس لاکھ کے مقابلے میں ظاہر ہے یہ تعداد انتہائی کم تھی۔ اس بارکے الیکشن کے لئے معمول سے زیادہ بڑھ چڑھ کر بے بنیاد اور غیر حقیقی دعوے کئے جا رہے ہیں۔سب سے پہلے استحکام پاکستان پارٹی کے عبدالعلیم خان نے یہ شگوفہ چھوڑا۔ انہوں نے اقتدار میں آ کر تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا اعلان کیا۔ ان کے اعلان کو خیر کسی نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پچھلے کچھ دنوں سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنے انتخابی جلسوں میں ووٹرز کو بجلی کے تین سو یونٹ مفت دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ دیگر بلند بانگ دعوے بھی کر رہے ہیں جو پہلی نظر ہی میں ناقابل عمل لگتے ہیں۔ اب مریم نوازشریف نے بھی جلسوں میں دو سو یونٹ بجلی مفت دینے کا کہا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ن لیگ ہی کے حمز ہ شہباز شریف تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ویسے یہ بہتر ہوگا کہ دونوں کزن آپس میں مشاورت کر کے ایک پیکج پر اتفاق رائے کر لیں۔ن لیگی ووٹربے چارہ کنفیوز نہیں ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے یہ لیڈر صاحبان جو خیرسے ایک طرح کی نئی نسل کی نمائندگی کر رہے ہیں ، یہ سب غلط اور بے بنیاد وعدے کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو حالات بن چکے ہیں، اس میں کوئی بھی پاکستانی حکومت چاہتے ہوئے بھی کئی برسوں تک تین سو یونٹ بجلی مفت نہیں دے سکتی؟پھر وہ عام ووٹر کو بے وقوف بنانے کے لئے ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟کیا آج دو ہزار چوبیس میں بھی ہم عوام کے لئے لیڈر وہی گھسے پٹے، پرانے ، عامیانہ حربے استعمال کریں گے؟ بی بی سی اردو نے اس حوالے سے ایک سپیشل رپورٹ شائع کی جس میں انہوں نے مختلف انرجی اور معاشی ماہرین سے اس بارے میں پوچھا، ان سب کے جواب تھے کہ یہ ناممکن ہے۔ بی سی سی کی رپورٹ کے مطابق ـ :’’موجودہ مالی سال میں بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں اور یہ رقم گھریلو، صنعتی، زرعی اور کمرشل صارفین سے بجلی کے بلوں کی صورت میں اکٹھی کی جائے گی۔توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ریوینیوبلز فرسٹ میں کام کرنے والے ماہر توانائی مصطفیٰ امجد نے سیاسی لیڈروں کے اعلان کو حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کے شعبے کی جو صورتحال ہے اس میں تو ایسے کسی وعدے پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔ کم بجلی کے یونٹس استعمال کرنے والوں کو دو صورتوں میں مفت بجلی دی جا سکتی ہے۔ حکومت یا تو اپنے وسائل سے بجلی کمپنیوں کو پیسے دے کر لوگوں کو مفت بجلی فراہم کرے یا پھر ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی فراہم کی جا سکے یعنی دوسرے شعبوں کے لیے بجلی کے قیمت زیادہ کر کے تین سو یونٹس والوں کو بجلی فراہم کی جا سکے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل عمل ہے کہ پاکستان کے بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اب ایسی صورت میں اس شعبے کے اندر سکت نہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکے۔ ’’انرجی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بھی مفت بجلی فراہمی کے اعلانات کو غیر حقیقی قرار دیا، اس لئے کہ ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی نہیں دی جا سکتی کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی شور مچا رہی ہے کہ ان کا ٹیرف اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کے لیے اس میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور انھیں زیادہ لاگت کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اپنے مصنوعات بیچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔دوسری جانب حکومت کے اپنے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔ اس سال پاکستان کو ساڑھے نو ہزارارب تک ریونیو اکٹھا کرنا ہے، جس میں سے 8500 ارب روپے تو بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ ’پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کی تعداد کا دو تہائی ہیں اور حکومت نے اس سال بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب اکٹھا کرنا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ تین سو یونٹس تک بجلی مفت کرنے پر دو ہزار ارب روپے دینے پڑیں گے۔اس لئے ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کے اعلانات لولی پاپ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔ایک اور معاشی ماہر نے آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف کو بھی اگر نظر انداز کر لیں تو یہ ویسے ہی مالی طور پر ممکن نہیں ہے۔آئی ایم ایف تو اس شعبے میں ایک ارب روپے کی سبسڈی دینے کی اجازت نہیں دے گا، دو ہزار ارب روپے کی رقم تو بہت بڑی بات ہے۔‘‘ ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکہ کی گریٹ ڈیبیٹ کی طرز پر ان بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو ٹی وی چینلز پر بلایا جائے اور ان سے معاشی ماہرین سوالات کریں کہ آپ کس طرح اتنے بڑے دعوے کر رہے ہیں اور آپ کے پاس کیا پلان ہے ؟یہ لیڈر صاحبان اپنی جماعتوں کے ماہرین سے مشاورت کر کے اپنا پلان لے کر آئیں اور عوام کو بتائیں کہ ہم صرف جھوٹے دعوے نہیں کر رہے بلکہ ہمارے پاس ٹھوس لائحہ عمل ہے۔ اپنے پارٹی منشور میں بھی پوری جزئیات کے ساتھ اپنی حکمت عملی واضح کریں۔ اصول یہ ہے کہ ووٹ کی عزت بعدمیں آئے گی، پہلے ووٹر کو تو عزت اور ہمت دو، اسے پوری بات سمجھائو ۔