جو ازل سے دوست ہمسائے اور رشتہ دار بھی ہیں، اگر ان کے مابین کشیدگی پیدا ہو کر بات دھینگا مشتی تک آ جائے تو یہ مخلص احباب کے لئے تشویش اور فکر مندی کی بات ہے نہ کہ جلتی پر تیل ڈالنے کا موقع‘ ایران اور پاکستان صرف ہمسایہ ہی نہیں صدیوں سے گہرے رشتوں میں بندھے دکھ سکھ کے دوست ہیں ہم پاکستانی بڑی حد تک ایران کے زیر احسان بھی ہیں‘ پاکستان‘ بھارت کے درمیان دونوں بڑی جنگوں کے دوران ایران ہمارے لئے ’’تزویراتی گہرائی‘‘ بھی تھا خصوصاً 1971ء کی جنگ جب پاکستان کے مدہوش حکمران جو بدقسمتی سے سپہ سالار بھی تھے ان کی نااہلی نے نہ صرف آدھا پاکستان گنوایا بقیہ پاکستان دشمن جنگی جہازوں کی زد میں تھا، اس وقت ہمارے ہوائی بیڑے ایران کے ہوائی اڈوں میں جگہ پاتے رہے، کشمیر جو ہمارا اولین اور سب سے بڑا تنازعہ ہندوستان کے ساتھ پہلے دن سے چلا آتا ہے۔ ایران نے ہمیشہ ہمارے موقف کی تائید کی سفارتی سطح پر مکمل ساتھ نبھایا۔ جواباً پاکستان نے بھی مشکل دنوں میں ایران کو تنہا نہیں چھوڑا‘ بڑے مفادات مشکلات کے دنوں میں مالی اور اقتصادی ترغیبات کو نظر انداز کر کے ایران کے لئے مشکلات پیدا نہیں کیں، انقلاب ایران اور تہران میں امریکی سفارت خانے پر نوجوانوں کے قبضے اور سفارتکاروں کو یرغمال بنا لئے جانے پر ایران کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی اور اقوام متحدہ کی وساطت سے ایران پر لگنے والی عالمی پابندیوں کے دوران بھی پاکستان نے اپنی سرحدوں کو کھلا رکھا، فوری ضرورت کی اشیاء کی ترسیل جاری رہی، عراق ایران جنگ جو دراصل عرب ایران جنگ میں تبدیل ہوچکی تھی یورپ اسے انقلاب ایران کو ناکام بنانے ایران کو سزا دینے اور شاہ ایران کو مسلط کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا امریکہ یورپ صدام اور حواریوں کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے تب امریکہ ہر طرح کی ترغیبات آزماتا رہا اور عرب دوستوں نے پاکستان کے خزانے بھرنے کے وعدے کئے۔ روس نے خاموش تماشائی تھا، چین کی ان دنوں کوئی بساط نہیں تھی پاکستان میں باوجود کہ فوجی ڈکٹیٹر حکمران تھا اور اسے حق حکمرانی تسلیم کروانے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ضرورت بھی تھی، اس کے باوجود پاکستان نے اپنی فوجی دستے عراق بھجوانے سے صاف انکار کر دیا، پھر کہا گیا فوجی دستے نہیں بھجوا سکتے تو ایرانی سرحد پر اپنی فوج تعینات کر کے تھوڑا دبائو بڑھا دیں، اس پر ضیاء الحق نے کہا تھا دوست بدلتے رہتے ہیں لیکن ہمسائے کو ہمیشہ ہمارے پہلو میں رہنا ہے یہ دو طرفہ دوستی اور بھائی چارہ ہے جو چودہ اگست 1947ء قیام پاکستان سے پہلے بھی قائم تھا پاکستان کے جنگی جہازوں نے ہی نہیں اس سے صدیوں پہلے مغل بادشاہ بابر کے بیٹے ہمایوں نے بھی ایران ہی میں پناہ حاصل کی اور اسی ایران کی مدد سے ہندوستان کی بادشاہت پر متمکن ہوا ہم پاکستانیوں کا ڈی این اے تک مشرق میں بھارت کے ساتھ نہیں مغرب میں ایران افغانستان اور ترکوں سے نسبت رکھتا ہے ہمارا مذہب تہذیب تمدن اور سرحدیں سب سانجھا ہے،اس سانجھ کو وقتی ناراضگی اور کسی ایک اشتعال کے لمحے پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنا موقف جانتے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کے خلاف خفیہ جنگ چھیڑ رکھی۔ اپنے ایجنٹوں کے لئے انہوں نے خفیہ ٹھکانے بنا رکھے ہیں، پاکستان کے اندر مشکل علاقوں میں پاکستان سے باہر سرحد کے ساتھ جہاں بھی انہیں رسائی مل سکے ایجنٹ کہیں بھی رہ سکتے‘ جہاں انہیں چھپ رہنے کی سہولت میسر ہو۔ وہ شہر ہوں یا ویرانے‘ افغانستان‘ ایران اور مشرقی سرحدوں کے دور اندر غداروں کو تربیت جاتی اور جاسوسوں کو تیار کر کے قتل و غارت اور دہشت گردی کے لئے تیار کیا جاتا ہے‘ ایسا کتنے نیٹ ورک کام کر رہے ہونگے، انہی میں سے ایک کلبھوشن یادیو‘ نیوی کا حاضر سروس افسر ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں نام اور کام بدل کر پاکستان میں دہشت گردوں کو کمانڈ کرتا ہوا پکڑا گیا۔ نہیں معلوم اور کتنے جو پکڑے نہیں گئے ایسے ہی گروہ ایران کے دشمنوں نے جال کی طرح پھیلا رکھے ہیں، پاکستان کا موقف ہم خوب جانتے ہیں کہ اس نے قابل اعتماد خفیہ ذرائع سے ان کے ٹھکانوں اور افراد کا درست پتہ لگا کر افغانستان اور ایران کی حکومتوں کو آگاہ کیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی یقینا اسی طرح کے مسائل ایران کے ساتھ بھی رہے ہونگے افغان اور پاکستان کے پر پیچ اور مشکل علاقوں ’’پہاڑوں کے بیچو بیچ تنگ آمد بجنگ آمد کبھی کسی کمزور لمحے یا نفسیاتی الجھن اور غصے میں سرخ لکیر ہو سکتی ہے، ایک ایسا کر گزرے تو دوسرے کو تھوڑا توقف کرنا اور صبر سے کام لینا ہوتا ہے۔ دوستی نازک بندھن ہے یاری دارنگ پالن اوکھا‘ تند سوتردی کچی اک چھکے‘ اک چھڈی جاوے‘تاں گل رہندی پکی(میاں محمد بخش) جب ہم دوست ہیں ہمسائے ہیں اور ہمارے مفادات میں کوئی بڑا ٹکرائو بھی نہیں‘ تو اپنے ملکوں میں چھپے اپنے اور دوست کے بدخواہوں کو کھوج کر مشترکہ کارروائیاں کر کے ان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے تو ایسا کرنے میں آخر کونسا امر مانع ہے حالیہ حادثہ میں ایک بات واضح ہے کہ ایران نے پاکستان کے اندر اپنے دشمنوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا جو یقینا پاکستان کے بھی دوست یا بہی خواں ہرگز نہیں تھے جواباً پاکستان نے جو کارروائی کی اس میں پاکستان کے حقیقی غداروں ‘ علیحدگی پسندوں کو بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا اور ان کے ٹھکانے تباہ ہو گئے ان حملوں نے ایک بات واضح کر دی کہ دونوں ملکوں کے تحفظات حقیقی اور خدشات محض واہمہ نہیں ہیں، اب بات کھل کر خفیہ دفتروں کی فائلوں اور وزارت خارجہ کے بابووں کی درازوں اور الماریوں تک محدود نہیں رہی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام‘ دشمنوں‘ دوستوں تک کو معلوم ہو چکی ہے تو اس سے بہتر کوئی وقت نہیں ہو سکتا کہ اپنی اپنی معلومات کا تبادلہ کر کے ان وحشت زدہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے مشترکہ کارروائی یہ عناصر دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے دشمن اور دشمتوں کے آلہ کار ہیں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ اور انسانیت دشمنوں کی بیخ کنی دونوں کی ضرورت اور مشترکہ مفاد ہے، ہمیں دونوں ممالک کے دشمنوں کو خوش ہونے اور کارروائیاں جاری رکھنے کا سہولت کار بننے سے انکار کرنا ہی ہو گا سفارتی اور سیاسی ذرائع استعمال کر کے مسائل کا حل فوجی کارروائیوں سے کہیں ارزاں اور موثر ہو سکتا ہے، اپنے لئے نرم اور دشمنوں کے لئے سخت پیغام اور اقدام کی ضرورت ہے کبھی شہ میں خیر کا پہلو چھپا ہوتا ہی نہیں،ان کے حکمران کب سے ہمارے حکمرانوں کو متوجہ کرنا چاہتے تھے اور ہم انہیں‘ ایران کے حملے سے جہاں نشاندہی ہوتی ہے‘ وہیں کے اس ایرانی میزائلوں کے دھوئیں میں پاکستان کو خفیہ ٹھکانوں پر کارروائی کا موقع میسر آ گیا۔ جو سفارتی نزاکتوں کی حفاظت میں پروان چڑھتے رہے تھے یہ دشمنوں اور دہشت گردوں کے لئے ایک پیغام بھی ہے کہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں نہ ہماری پہنچ سے دور اور ہم ایسے ذرائع بھی رکھتے ہیں جو انہیں پلک جھپکتے صفحہ ہستی سے مٹا دیں اس ناگوار حادثے کے بعد دونوں ملکوں نے دوستی کو برقرار رکھنے کے لئے فوری اقدامات اور گرمجوشی کا اظہار کیا ہے واقعی بڑا مزا اس ملاپ میں /جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر