بظاہر ہمارے شب و روز ماہ رمضان میں بدل جاتے ہیں زندگی کے سب کام سحروافطار کے نظامِ الاوقات کے گرد گھومتے ہیں۔ تراویح کا اہتمام ، نمازوں کی پابندی ، قرآن پاک کی تلاوت معمول میں شامل ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔سکول کالج کے دور میں دوستوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا کہ کتنے قرآن پاک ختم کیے۔مجھ سے تو خیر تب بھی ایک ہی قرآن پاک رمضان المبارک میں پڑھا جاتا تھا۔لیکن اب کچھ عرصے سے میں نے ترجمہ باقاعدہ پڑھنا شروع کیا ہے۔ اور کوشش ہے کہ رمضان المبارک میں بھی یہی روٹین رکھی جائے کہ محض ختم قرآن کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ آغاز میں آپ قرآن پاک کو سلیس ترجمہ کے ذریعے پڑھنے کی کوشش کریں شروع میں اس کی تشریح اور تفسیر کی طرف نہ جائیں ، صرف ترجمہ پڑھیں آپ پوری حسیات اور کامل توجہ کے ساتھ آیات کے ساتھ ترجمہ پڑھیں گے تو قرآن کی الہامی زبان آپ کے دل پر اترنے لگے گی یقین کریں دل ایک خاص کیفیت سے دوچار ہو گا۔ٹیکنالوجی کے دور میں ایسے موبائل ایپ بھی موجود ہیں جس میں قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ باآسانی پڑھا جاسکتا ہے ۔اسلام ونislam one اس حوالے سے شاندار ایپ ہے ۔مسنون دعائیں ترجمہ کے ساتھ موجود ہیں احادیث کی کئی کتابیں عنوان کی ترتیب کے ساتھ اس میں سمائی ہوئی ہیں۔ اردو زبان میں احادیث عربی متن کے ساتھ موجود ہیں ۔قرآن پاک کے تلفظ کی تصحیح کے لئے آپ جب چاہیں ایک کلک قاری صاحب کی پر تاثیر آواز میں قرآن کی تلاوت سن سکتے ہیں۔ اس ایپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اشتہارات کی آلائش سے پاک ہے۔اگر قرآن مجید میسر نہ ہو تو آپ اس ایپ پر بھی کامل بڑی توجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہیں کوئی پاپ اپ ایڈ ارتکاز کے دائرے کو نہیں توڑتا۔اللہ کریم تک پہنچنے کا ایک خوبصورت راستہ یہ بھی ہے کہ اللہ کی ضرورت مند مخلوق کے دکھ درد کم کرنے کی کوشش کریں اور میرے نزدیک رمضان کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے۔ اس وقت یہ رمضان ان حالات میں آیا ہے کہ میرے لاکھوں ہم وطن بد ترین معاشی حالات سے گزر رہے ہیں۔اور وہ لوگ جن کے گھروں میں ایک وقت کا سالن بنانے کی سکت نہیں رہی وہ بھی روزے رکھتے ہیں بلکہ عبادات اور روزوں کے اہمتمام کے حوالے سے غریب امتیوں کا جوش وخروش اور جذبہ دولت مندوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔تو پیارے ہم وطنوں اگر آپ کو اللہ نے کشادگی دی ہے کہ آپ تین وقت کا کھانا آرام سے کھاتے ہیں اپنے دل کو کشادہ کریں اور غریب ہم وطنوں کے لیے اپنے دل میں گداز پیدا کریں۔آپ اپنی سحر اور افطار کے ساتھ ساتھ کسی ایک انتہائی مجبور اور غریب گھر کی ذمہ داری اٹھانے کی کوشش کریں اور معاشی حالات کی ابتری تو سب کے لئے ہے مگر یقین کریں گے جب آپ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے آپ کے لیے رزق میں کشادگی پیدا ہوگی۔ ابتر معاشی حالات کے پیش نظر سرکاری افطار پارٹیوں پر پابندی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ گھروں کے اندر بھی سادگی کو رواج دیں۔کوشش کریں کہ اپنے ہی رشتہ داروں کو بار بار افطار پر بلانے کے بجائے وہ رقم آپ کسی ضرورت مند گھر ایک دو دن اچھی افطاری بھجوادیں۔اور رمضان المبارک ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے اندر بھی انسانی ہمدردی پیدا کریں۔حالات کی صورت اس بار بہت مختلف ہے تو کیوں نہ ہم بھی مختلف انداز میں سوچیں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم کسی ایک شخص ہی کی زندگی کو خوبصورت بنا سکے۔رمضان المبارک ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی بہترین تربیت کر سکیں اور ان کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ کے بیج بوئیں۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی بساط بھر مدد کریں تو اپنے بچوں کے ہاتھوں سے انہیں دلوائیں ان کے اندر انسانیت کا ایسا جذبہ بیدار کریں کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر دوسرے کے لئے سوچ سکیں۔ ہمارا سب سے بڑا سماجی اور سیاسی بحران ہی یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی ضرورتوں اور اپنے اپنے مفاد کے پجاری ہو کے رہ گئے ہیں۔ یہ بات ایک عام فرد سے لے کر اہل اختیار و اہل اقتدار تک چلی جاتی ہے۔ جن کی ہوس، لالچ،اور مفاد پرستی ملک کو دہائیوں پیچھے دھکیل کر نسلوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان کے اہل اختیار اپنے اپنے مفاد کے بتوں کو پوجتے رہے ہیں سماجی سطح پر بھی اخلاقی اقدار کا جو زوال ہمیں نظر آتا ہے تو یہی خود غرضی اور مفاد پرستی کا شاخسانہ ہے جو اوپر سے نیچے تک لوگوں میں سرایت کر چکی ہے۔کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو دوسرے لوگوں کی ضرورتوں کا احساس دلائیں اور ان کی ماہانہ پاکٹ منی سے کچھ صدقہ خیرات غریبوں کے لئے کروایا کریں تاکہ وہ اپنی ذات کے دائریسے باہر نکل کر دوسرے انسانوں کی بہبود کے بارے بھی سوچ سکیں۔بظاہر رمضان المبارک میں ہمارے شب و روز بدل چکے ہیں کوشش کریں کہ ہم اندر سے بھی بدلیں۔ پس نوشت:کالم لکھ رہی تھی کہ عمر شیخ ڈی آئی جی لاہور کی ناگہانی وفات کی دکھ بھری خبر ملی۔ عمر بھائی میری کالج کی دوست رابعہ عفت کے بڑے بھائی تھے۔ان کی والداپنے بیٹے کو اعلی تعلیم دلانے کے لیے خاندانی مسائل کی وجہ کافی مشقت سے گزرے۔عمر بھائی نے جس وقت سی ایس ایس کیا اور پولیس کاشعبہ جوائن کیا اس وقت خان پور جیسے چھوٹے شہر میں سی ایس ایس کا اتنا رحجان نہیں تھا پھر وہ خان پور کے نوجوانوں کے لیے ایک آئیڈیل بن گئے۔ موٹروے زیادتی کیس کے وقت وہ سی سی پی او لاہور تھے۔ ان کا ایک بیان لوگوں نے بہت متنازعہ بنا دیا۔ اگرچہ ایسا کچھ بھی اس میں نہیں تھا بہرحال انہوں نے حق بات کی تھی جس کی تائید میں، میں نے بھی رائے عامہ کے بہاؤ کے مخالف کالم لکھا۔عمر شیخ خانپور کا قابل سپوت تھا اللہ کریم ان کی اگلے منزلوں کو آسان کرے، خاندان کے ساتھ دلی تعزیت کرتی ہوں۔