16مارچ کی شب مائوں کے جگر گوشے گھروںکی عافیت سے میلوں دُور سنگلاخ گھاٹیوں میں وطن کی سرحدوں کی نگہبانی پرمامور تھے۔ اسی رات کے پچھلے پہر جب روشنیوں میں نہاتے شہر اور بستیاں سحری کے لئے بیدار ہوئے تو وطن کے بیٹے تاریکی میں حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ معرکے میں سات خاکی پوشوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان شہیدوں کا تعلق کسی ایک صوبے، ایک شہر، ایک مسلک یا کسی ایک سیاسی جماعت سے نہیں تھا۔ یہ سب پاک فوج کے افسر اور جوان تھے۔ شہید کرنل کے جسدِخاکی کو صدرِ مملکت نے آرمی چیف کے ساتھ مل کر کاندھا دیا ۔وزیرِ اعظم اگلے روز نوخیز کپتان کے گھر تشریف لے کر گئے۔اس موقع پر شہید کے والدنے جو خود بھی ایک سابقہ فوجی ہیں، جس عزیمت، صبر اور کمال ضبط و ایمان کا مظاہرہ کیا، وہ ہم جیسوں کے سر فخر سے بلند کردینے کے لئے کافی ہے۔ شہیدوں سے عقیدت اور ان کے پسماندگان سے اظہارِ یکجہتی کے لئے صدرمملکت اور وزیرِ اعظم کا طرزِ عمل قابل ستائش ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وفاقی وزراء بھی بیانات کو یہیں تک محدود رکھتے ۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ راج نیتی کے سفاک کھیل سے اِن شہادتوں کوباہررکھا جاتا۔ پاک فوج کے غازی اور شہید ہمارا مشترکہ اثاثہ اورقومی سرمایہ صد افتخار ہیں۔ دارالحکومت کے وسط میں بیٹھے مولانا اور اُن کی بیگم ہمارے زخموں پر نمک پاشی کریں تو اور بات ہے۔مگر کسی قومی سطح کی تنظیم یا سیاسی گروہ سے وابستہ افراد کہ جن کا تعلق بھلے ہی کسی بھی نظرئیے یا سیاسی فکر سے ہو، ہمارے شہیدوں کی بے حرمتی کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟کیا مٹھی بھر بے نامی سوشل میڈیا اکائونٹس کی طرف سے اُگلی جانے والی غلاظت کو چُن چُن کرکسی ایک طبقے یا کسی ایسی سیاسی جماعت کے سرتھوپا جا سکتا ہے کہ جو ایسی کسی بھی مہم سے لاتعلقی پر مُصر ہو؟بد قسمتی سے سیاسی حریفوں کو کچلنے کے لئے حالیہ دنوں میں جس آسانی اور فراوانی کے ساتھ غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکیٹس بانٹے جارہے ہیں وہ جمہوریت کے لئے ہرگز نیک شگون نہیں۔ اس سے پہلے ہم یہی طرزِ عمل ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ جب ایک مقبول سیاسی رہنماء کو ’ سکیورٹی رسک‘ قرار دیتے ہوئے، ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں اُن کا راستہ روکے جانے کی خاطر ایک انتخابی اتحاد کی سربراہی قبول کی گئی تھی۔ برسوں اپنے غیر جمہوری رویوں اور محاذ آرائی سے پھوٹنے والے نتائج بھگتنے کے باوجود ہماری رہبری کے وہی دعویدار آج بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ۔کیا کسی جماعت کو کہ کروڑوں پاکستانی جس سے وابستہ ہوں ، شہیدوں کی بے حرمتی جیسے سنگین جرم کے ارتکاب کا یوںبلا تحقیق مرتکب قرار دیا جاسکتا ہے؟کیاخود اِس سے بڑھ کر شہیدوں کی بے حرمتی اور ان کے لواحقین کی کوئی اور دل آزاری ممکن ہے؟ سلامتی کے اداروں اور عوام کے درمیان آج اگر کوئی بد گمانی پائی جاتی ہے تو ہم جیسوں کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ملک کے اندر ہر طبقے سے وابستہ کروڑوں پاکستانی ہیں۔ کیا سب راتوں رات گمراہ ہو کر کسی ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گئے؟ چلئے مان لیا، کروڑوں نوجوان ہیں، جو بھٹک گئے،عام عوام ہیں، معاملات کا جو گہرا ادراک نہیں رکھتے۔ یہاں تو مگرایک فعال اور پڑھی لکھی پوری کی پوری مڈل کلاس ہے ، اپنے گردو نواح سے جو یکسر بے خبر نہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی ہیں وطن کی محبت میں جو سرشار ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ملک کو درپیش حالات میں وہ کس قدردل گرفتہ اور اضطراب میں جیتے ہیں؟کیا ہمہ وقت ان کی تضحیک لازم ہے؟ لاکھوں ڈاکٹرزہیں، انجنیئرز ہیں، وکلاء ہیں، اساتذہ ہیں، زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ لاتعدادپروفیشنلز ہیں۔ پہلی بار پاکستانی خواتین متحرک ہوئیں۔ لاکھوں سابقہ فوجی ہیں۔شہیدوں اور غازیوں کے خاندان ہیں ۔ آخر کس کس کو گمراہ اورملک دشمن قرار دیا جائے گا؟کیا اجتماعی دانش بھی کوئی شے ہے یاکہ نہیں؟ پانچ سو سال پہلے میکیاولی نے اپنے پرنس کو نصیحت کی تھی،لوگوں (Multitude)کی بات کو سنا کرو۔کہاVox populi,vox Dei ۔زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ یہی وہ حکمت تھی کہ آنے والی صدیوں میں جورفتہ رفتہ جمہوری نظام میں متشکل ہوئی۔ زبانِ خلق کہہ کیا رہی ہے؟ لوگوں کی بات کو سننے کی بجائے کب تک سایوں کا تعاقب کیا جاتا رہے گا؟ گزرے برسوں قومی ادارے کے وقار کو شاید ہی کسی اور شے نے اس قدر نقصان پہنچایا ہو کہ جیسے اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پائوں مارتا ایک گروہ عوام کے ساتھ ادارے کے تاریخی رشتے میں ضعف کا سبب بناہے۔ ریاست سے بغاوت ، ملک دشمنی، اور شہداء کی بے حرمتی جیسے دلوں کو چیر دینے والے بہتانوں کا سزاوار ٹھہراتے ہوئے مہینوں جنہیں سنگسارکیاگیا، عوام نے ان پر تھونپے گئے الزامات کو قبول کرنے سے مگرصاف انکار کر دیا۔ کسی اور کا نہیں، بیانیہ اس ایک سیاسی گروہ کاپِٹا ہے ، خود کو جو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا کر پیش کر رہا تھا ۔ 9 مئی کی آڑ میںدرحقیقت جو اپنے گروہی مفادات کو سینچ رہا تھا۔ 9مئی کے سانحے کو جس نے ہماری آنکھوں کے سامنے بے معتبر کیا۔کروڑوں شہریوں کو ملک دشمن اور غدارقرار دینے پر جب کوئی ایک گروہ خود کو مامور کر لے،ماضی جس کا اپنا مشکوک ہو، توعوامی ردِ عمل کی بے رحم لہر کو کون روک سکتا ہے؟ کسی ایسے گروہ کے ساتھ کھڑے رہنا گھاٹے کا سودا نہیں تو اورکیا ہے؟ جس صوبے میںاب ’ماں کی حکمرانی‘ قائم ہوئی ہے وہاں سفاک(Ruthless ) رویہ اپنائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ آئین سے رو گردانی،جمہوری حقوق کی پامالی، عورتوں اور بچوں سمیت شہریوں پر تشدد کا سلسلہ ابھی رُکے گا نہیں کہ مسندِ اقتدار پر صرف چہرے بدلے ہیں۔ اگلے روز ایک پولیس اہلکار کو ہم نے ایک گاڑی میں کہ دو سہمے بچے جس کی پچھلی سیٹ پر دبکے بیٹھے تھے، حملہ آور ہوتے دیکھا۔ کیا اب بھی نفرت کے اسباب کو سمجھنا مشکل ہے؟ آنکھیں مگر دیکھنے سے قاصر ہیں۔ کان ہیں کہ وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں۔۔ گلے شکوے اپنوں کے بیچ ہی ہوتے ہیں۔ اس بار اگرچہ دل دکھی اور سینے غبار سے اَٹے ہیں ۔آج اگر مرہم رکھا جائے، زخموں کے بھرنے میںکچھ وقت تو درکار ہوگا۔ اپنے غازیوں اورشہیدوں کی بے حرمتی کا مگرکوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟ میر علی، میر علی کے بعد گوادر، تو اگلے روز ڈیرہ اسمٰعیل خان۔ایک کے بعد ایک دن خاکی پوشوں کا خون بہتا ہے۔ یہ زمین مگر ابھی اورخراج مانگتی ہے۔دھرتی کے بیٹے اپنی جانوں پر کھیل کر یہ خراج ادا کرتے رہیں گے۔لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ راج نیتی کے سفاک کھیل سے شہیدوں کی پاک روحوں کو دورہی رکھا جائے؟