ایک بار پھر ہم قومی سیاسی منظر پر عدلیہ کے حوالے سے محاذ کھلتا دیکھ رہے ہیں۔حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کے خلاف عمومی طور پر اور بعض ججوں کے خلاف خاص طور سے اپنی کمپین شروع کر دی ہے۔ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائز مریم نواز شریف نے اگلے روز اپنے سیاسی جلسہ میں بڑی دھواں دھار تقریر کی، فاضل جج صاحبان پر نہایت تند وتیز طنزیہ جملے پھینکے اور باقاعدہ تصاویر لگا کر نہایت منفی تقریر کی۔ میری کئی قانون دانوں سے بات ہوئی، ان میں پی ڈی ایم کے حامی بھی تھے، ان سب کا یہ خیال تھا کہ توہین عدالت کے جتنے بھی پیمانے ممکن ہوسکتے ہیں، ان سب پر یہ تقریر پوری اترتی ہے اور مریم نواز نے واضح طور پر توہین عدالت کی ہے۔ ایسا ظاہرہے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔ ایسا نہیں کہ مریم نواز کو علم نہ ہو یا ان کے حامی وکلا توہین عدالت کے مضمرات سے ناواقف ہوں۔ اس کے باوجود یہ کیلکولیٹڈ رسک لیا گیا۔مریم نواز نے خود اس ٹاسک کی ذمہ داری لی، ورنہ یہ کسی دوسرے وفادار ساتھی کو دی جا سکتی تھی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ۔ دراصل ن لیگ یہی چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی طرف جائے اور پھر مریم نواز ایک ہیرو کی طرح انگلیوں سے وی فار وکٹری کا نشان بنائے کارکنوں کے جلوس کے ساتھ عدالت پہنچیں، ان کے حامی وکلا آسمان سر پر اٹھا لیں اور اتنا گرد وغبار اٹھے کہ سب کچھ پیچھے رہ جائے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم آخر اس قدر انتہائی اور ناپسندیدہ پوزیشن لینے پر کیوں مجبور ہوئی ہے؟ اس کا جواب ہے ، عمران خان ۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہو گئے تو عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف بہت بڑی اکثریت سے الیکشن جیت جائے گی۔ کہاجاتا ہے کہ خود حکمران کیمپ کے اندازوں کے مطابق پنجاب اور کے پی میں ستر فیصد سے زیادہ کامیابی پی ٹی آئی کو مل سکتی ہے۔ ن لیگ سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے بچا جائے ۔ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن درحقیقت مسلم لیگ کے لئے سیاسی موت کے مترادف ہیںکیونکہ ان کا اصل سیاسی مرکز ہی پنجاب ہے۔ پیپلزپارٹی کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ان کی اصل قوت اور سیاسی اثاثہ سندھ میں ہے ، جسے دور دور تک کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ بظاہر اگلے صوبائی الیکشن میں وہ نہایت آسانی سے اکثریت حاصل کر لیں گے اور اگر ایم کیو ایم کے ساتھ مخلوط حکومت بنا لی تو دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہوجائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اس حوالے سے نسبتاً خاموش ہے ، بلکہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض سینئر وکلا تو کھلم کھلا ن لیگ پر تنقید کر رہے اور عدلیہ کی سائیڈ لے رہے ہیں۔ دو دن پہلے پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن، سابق گورنر اور سینئر قانون دان لطیف کھوسہ نے نائنٹی ٹو نیوز کے پروگرام میں سینئر صحافی عامر متین سے گفتگو کرتے ہوئے برملاکہا کہ مریم نواز کی تقریر نامناسب تھی اور یہ توہین عدالت کے مترادف ہے ، تاہم عدالت کو اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ لطیف کھوسہ کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے نوے روز کے اندر الیکشن کرانا آئینی ذمہ داری ہے اور کوئی اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ لطیف کھوسہ نے بارکونسلز کی بعض جج صاحبان پر تنقید پر بھی ناپسندیدگی ظاہر کی ۔ لطیف کھوسہ کی رائے اس لئے اہم ہے کہ انہوں نے اسے اپنی ذاتی رائے نہیں کہا۔ اسی روزایک اور ٹاک شو میں کھوسہ صاحب نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کا موقف ہے اور بطور پارٹی ہماری اپنی آزادانہ رائے ہے۔ ن لیگ اور ان کے حامی وکلا کا کہنا ہے کہ اس نو رکنی بنچ سے دو جج صاحبان کو ہٹایا جائے جبکہ جن دو سینئر ججوں کو شامل نہیں کیا گیا، انہیں ڈالا جائے۔چیف جسٹس نے جو لارجر بنچ بنایا،اس کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات یہ نظر آتی ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججوںمیں سے تین سینئر جج اس بنچ میں شامل ہیں، یعنی چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس منصور علی شاہ۔ جبکہ دیگر جج صاحبان بھی نہ صرف سینئر ہیں بلکہ ان میں سے اکثر لارجر بنچز کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ جیسے جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منیب اختر ، جسٹس جمال مندوخیل وغیرہ۔ درحقیقت سپریم کورٹ کے اس وقت سینئر ترین گیارہ ججز میں سے آٹھ جج صاحبان اس لارجر بنچ کا حصہ ہیں جبکہ نویں جسٹس اطہر من اللہ ہیں جو کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آئے ہیں۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ روایت کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان ہی بنچ یا لارجر بنچ تشکیل دیتا ہے اور رولز کے تحت یہ انہی کا اختیار ہے۔ انہیں کوئی مجبور نہیں کر سکتا کہ فلاں جج کو شامل کرو اور فلاں کو نکالو۔ بارکو نسلز کو بھی اس کا کوئی اختیار یا حق حاصل نہیں۔ ویسے بھی اگر اسی اصول پر دیکھیں تو ہر جج پر کوئی نہ کوئی پارٹی یا گروپ الزام لگا سکتا ہے۔ ہر جج نے کوئی نہ کوئی فیصلہ کسی کے خلاف دیا ہی ہوتا ہے۔ ن لیگ اور بارکونسل جن دو فاضل جج صاحبان کو شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، عین ممکن ہے تحریک انصاف ان پر اعتراض کر دے کہ انہوں نے ہمارے خلاف فیصلے کر رکھے ہیں۔ اس طرح تو بحران کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ن لیگی حلقے تواتر سے بعض فاضل جج صاحبان پر الزامات لگا رہے ہیں اور انہیں تحریک انصاف کا حامی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بات نہایت غلط اور نان سینس ہے۔ مثال کے طور پر صرف سوا سال پہلے جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے سینٹ کے الیکشن اوپن کرانے کے لئے ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے حکومتی استدعا مسترد کر دی تھی اور الیکشن سیکرٹ بیلٹنگ کے تحت ہوا۔ قارئین کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ اس پانچ رکنی بنچ کے دو جج صاحبان ریٹائر ہوچکے ہیں جبکہ عمران خان حکومت کی منشا کے خلاف فیصلہ کرنے والے باقی تین ججوں میں موجودہ چیف جسٹس عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی وہ ریفرنس مسترد کیا تھا، یہ تینوں اسی نو رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔ ایک اور دلچسپ مثال دس ماہ قبل قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل کا کیس ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فل بنچ نے اس کا فیصلہ متفقہ طور پر عمران خان حکومت کے خلاف کیا تھا۔ اس بنچ میں موجودہ چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن (ان کو ہٹانے کا مطالبہ ن لیگ زور شور سے کر رہی ہے)، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔ان پانچوں جج صاحبا ن نے تب وزیراعظم عمران خان کے خلاف فیصلہ دیا ، جس سے عمران خان کو زبردست سیاسی نقصان پہنچا، ان کی حکومت بعد میں ختم ہوگئی، پی ڈی ایم برسراقتدار آ گئی اور تب سے وہ بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ موجودہ لارجر بنچ میں یہ پانچوں جج صاحبان شامل ہیں۔ انصاف سے کام لینے والا کوئی بھی شخص کس طرح اس بنچ کوعمران خان کا حامی قرار دے سکتا ہے ؟ کیا چند ماہ قبل پنجاب اسمبلی کے حوالے سے ایک فیصلہ کرنا ان جج صاحبان کا قصور ہوگیا؟ ایک حل فل کورٹ کا ہے یعنی سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مشتمل بنچ بنایا جائے۔ یہ بھی نہایت غیر معمولی صورت ہے اور صوبائی اسمبلیوں کا نوے روز کے اندر الیکشن کرانا کوئی ایسا ایشو ہے نہیں جس کے لئے فل کورٹ کی نوبت پیش آئے۔ یہ بات ہوا میں نہیں کہہ رہا بلکہ اس لئے کہی کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔ پی ڈی ایم نے یا ان اسمبلیوں کے کسی رکن نے عدالتوں میں اس تحلیل کو چیلنج ہی نہیں کیا۔ حتیٰ کہ لاہور ہائی کورٹ جس نے نوے دن کے اندر الیکشن کمیشن کو صوبائی انتخابات کرانے کا حکم دیا، اس کے سامنے بھی الیکشن کمیشن یا گورنر صاحب نے اسمبلیوں کی تحلیل کے حکم کو غیر قانونی نہیں کیا، اسے چیلنج ہی نہیں کیاگیا۔ گورنر کا عذر تھا کہ میں نے چونکہ تحلیل کی سمری پر دستخط نہیں کئے، اس لئے میں الیکشن ڈیٹ کیسے دوں؟ الیکشن کمیشن کے عذر مزید کمزور تھے، صوبائی حکومتوں سے معاونت نہ ملنے اور گورنر کی جانب سے تاریخ کا اعلان نہ کرنا وغیرہ۔ اس لئے اسمبلیوں کی تحلیل چیلنج ہی نہیں ہوئی اور اس اعتبار سے نوے دن کے اندر الیکشن کرانا آئینی پابندی ہے۔ لطیف کھوسہ کے بقول ایک دو آرٹیکلز کی تعبیروتشریح کا معاملہ ہے کہ ڈیٹ کا اعلان کس نے کرنا ہے اور صدر نے جو اعلان کیا ہے، اس کی حیثیت کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لئے تو اتنے بڑے لارجر بنچ کی بھی شائد ضرورت نہیں تھی، پانچ رکنی فل بنچ بنانا ہی کافی ہوتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے نہایت فراخدلانہ فیصلہ کیا تاکہ کسی فریق کو اعتراض کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ اس سپرٹ کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو سراہنا چاہیے نہ کہ انہیں متنازع بنانے کی ڈرٹی کمپین چلائی جائے۔