کیا ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور ہونا ہی سویلین معاملات میں اس کی مداخلت کا بنیادی سبب ہے؟ ریاستیں اپنی دفاعی ضروریات سے ہر گزغافل نہیں رہتیں۔مگر ایسی ریاستیں جوجارحانہ عزائم رکھنے والے ہمسائیوں میں گری ہوئی ہوں،اپنے وسائل کا بڑا حصہ اپنے دفاع کے لئے مختص کرنے پر مجبور رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور دیگر مسائل کو لے کر،ترقیاتی اور دفاعی اخراجات میں عدم توازن پر جواعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ،انہیں سرے سے رد کرنا دشوار ہے۔تاہم دفاعی اخراجات کو استعماری عزائم رکھنے والے ہمسائے کی موجودگی میںایک خاص درجے سے نیچے لانا کس حد تک ممکن ہے، یقینا ایک بے حد الجھن والا سوال ہے۔یہ الجھن ترقی یافتہ ہوں، ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک،سبھی کو مستقلاََ درپیش رہتی ہے۔دوسری جانب حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں سلامتی کے ادارے طاقتورہی ہوتے ہیں۔ بندوقوں، توپوں، ٹینکوں اور لڑاکا جہازوں سے لیس ہوتے ہیں۔چونکہ سلامتی کے ادارے طاقتور ہوتے ہیں، لہٰذا سویلین حکومتوں کے ساتھ ان کے مسائل بھی چلتے رہتے ہیں۔ان مسائل کو عموماً،سول ملٹری تعلقات‘ کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے۔ سول ملٹری تعلقات کی مساوات (Equilibrium)میں اونچ نیچ پوری دنیا میں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔پوری دنیا میں افواج یا جنہیں ہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، اپنے ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر سر گرم رہتی ہیں۔دوسری طرف دنیا بھرمیں جمہوری حکمران جہاںمحدودقومی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سلامتی کے اداروں کو طاقتور بنانے کے لئے سرگرم رہتے ہیں تو بیک وقت اُن اداروں کی طاقت کوآئین کے تابع رکھنے کے لئے ہمہ وقت Paradoxical صورتحال سے بھی نبرد آزما رہتے ہیں۔یہ کچھ اور نہیں’سٹیٹ کرافٹ ‘کا حصہ ہے۔ طاقتور اداروں کو کمزور کئے بغیر اُن کی’طاقت‘کو قابو میںرکھنے کی اہلیت سویلین رہنمائوں کو’سویلین بالادستی ‘کا راگ الاپنے سے نہیں بلکہ اخلاقیات،مبنی بر انصاف رویوں ،elite capture سے نجات،مضبوط سویلین اداروں کے قیام اورآئین و قانون کی عملداری سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سال 1958ء میں پاکستان کے عوام ملک کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور آئین و قانون کی عملداری سے مطمئن ہوتے توآج ہمارے ملک میں ’سول ملٹری مساوات ‘کی نوعیت ہی نہیں ، ہماری تاریخ بھی مختلف ہوتی۔کیا ہم نے اس باب میں اب بھی ماضی سے کچھ سبق سیکھا ہے؟ہمارا تو خیال ہے،ہرگز نہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں سیاسی رویئے ناعاقبت اندیشی،گروہی تعصبات، خودغرضی، ظلم اور نا انصافی پر استوار ہیں۔عام سیاسی جماعتوں اور ان کے حمائیتوں کی جانب سے اختیار کیا گیا متعصب رویہ تو قابلِ فہم ہے، دانشور طبقے، جمہوریت پسندلبرلز ، عوام کی ذہن سازی کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں اور سب سے بڑھ کے آئین اور قانون کے محافظ منصفوں اور وکلاء سے متعلق کیا کہا جائے؟ملک کے مستقبل سے پاکستانی کیا کبھی اس قدر بھی مایوس تھے؟ہزاروں کی تعداد میں جس کا بس چل رہا ہے ، ملک چھوڑ رہا ہے۔جن کے پاس قانونی راستوں سے ہجرت کے وسائل نہیں وہ انسانی سمگلروں کے ذریعے بے رحم سمندروں کے اندر فرار کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ہمارے وزیرِ اعظم پوچھتے ہیں، کیا ہوا، اگرپاکستانی ملک چھوڑ رہے ہیں؟ آج صورت حال یہ ہے کہ حالیہ بندوبست کے حمائتی بڑے انگریزی اخبارکے صفحہ اول پر چھپنے والی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے طے پانے والے سٹینڈ بائی معاہدے کے اثرات خوفناک حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں۔ آسمان کو چھوتی امریکی کرنسی کی قدر میں ابھی مزید 20%اضافہ متوقع ہے۔ تو کیا اس کے نتیجے میں تین سو روپے کے پاس بکنے والا پٹرول کیا مزید مہنگا نہیں ہوگا؟ بجلی کے نرخ کم تودرکنار ، کیابرقرار رہنے کا بھی کوئی امکان دکھائی دیتاہے؟کیا کوئی ایک سیاسی جماعت ، کوئی ایک فرد،کوئی ایک ادارہ اِن پہاڑ جیسی مشکلات پر قابو پا نے کی اہلیت رکھتا ہے؟ کیا ملک پر مسلط کئے گئے اُس حکمران گروہ پر ان خوفناک چیلنجز سے نمپٹے کے لئے بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ جسے ملک کے پچاسی فیصد عوام نا پسند کرتے ہوں، انتخابات ہی نہیں، عوامی سرویز سے بھی جس کی جان نکلتی ہو؟کیاملک میں پارلیمنٹ سمیت تمام قومی ادارے وقاراور دبدبہ کھو چکے ہیں؟کیا کوئی عہدہ ایسا بچا کہ جس کے کہے پر لوگ بھروسہ کریں؟کیا سیاستدانوں نے بالآخرقومی نائو کے چپوں پانی سے اٹھا لئے ہیں؟ کیا گروہی مفادات اور ذاتی بقاء کی جبلت قومی سوچ پر اس قدر حاوی ہو چکی ہے کہ کشتی کو منجدھار کی بے رحم لہروں کے حوالے کر دیا گیا ہے؟ بہت سے حادثات و واقعات اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہماری قومی نفسیات میں رچ بس گئی ہیں۔خوف اورجبر کی بہرحال ’طبعی عمر‘ ہوتی ہے۔ کیا یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ جس قدر بھی مظالم ڈھائے جائیں، پاکستانی چپ چاپ سب سہتے چلے جائیں گے؟ یہ درست ہے کہ اس خطے پر بسنے والوں کی کثیر تعداد کی سرشت میں طاقت کے سامنے جھکنے کی روش شامل ہے۔ لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں کہ یہی عوام جب بپھرے ہوئے ہجوم کا روپ دھارتے ہیں تو آندھی کے منہ زور بگولے کی طرح سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔حالیہ دنوںکے اندر ملک میں مشتعل جتھوں کی جانب سے بجلی کے بلوں کو جلائے جانے کی خبریں تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں۔ اونچے محلات میں کیا ان مظاہروں کی حدت محسوس ہوئی یا کہ ابھی بھی نہیں؟ کیا ہمارے نگران وزیرِ اعظم سمجھتے ہیں کہ جینے کے ہاتھوں مرنے پر مجبور پاکستانیوں کو وہ محض اپنی شستہ گفتگوکے بل پر ہر رات بھوکے پیٹوں لوری دے کر سلاتے رہے گے؟اور راوی سب چین لکھتا رہے گا۔ یقیناکلیدی عہدوں پر فائز اہم شخصیات ہم جیسوں سے ہزار گنا زیادہ با خبر ، با صلاحیت اور کچھ کر گزرنے کے عزم سے لیس ہیں۔قومی کشتی کو بھنور سے نکال ساحل پر لانے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی ان کی خواہش پر بلا وجہ شکوک وشبہات کھڑے کرنا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو بازیاب کرنے کی خاطر کی گئی کاوشوں کے پیچھے اُن کی نیک نیتی کی بھی قدر کی جانی چاہیئے۔ تاہم گھنٹوں پر محیط اِن کوششوں نے ایک بات بہر حال ثابت کی ہے کہ درپیش بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے محض ’قوت‘کا استعمال کافی نہیں۔ شعبہ جاتی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ،مشترکہ قومی کاوش کے ذریعے کہیں بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔طاقتورعسکری ادارے روزِ اوّل سے ہماری سلامتی کے لئے لازم وملزوم رہے ہیں۔اِن اداروں کو کمزور کئے بغیر، سویلین اداروں کو مضبوط اورمستحکم بنیادوں پر استوا رکرنا ، ہماری بقاء کے لئے نا گزیر ہو چکا ہے۔ ایک طناب کے سہارے ، تیز ہوائوں کے تھپیڑے کھاتی، آسمان میں معلق قوم کے پائوں زمین پر ٹکانااب تنہاکسی ایک سیاسی جماعت ، فرد یا ادارے کے بس کی بات نہیں رہی۔ عوام کو شراکت دار بنائے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔