حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ انسان اپنے معاملات سے پہچانا جاتا ہے۔ ہم نے دین کو اپنے معاملات میں جگہ دینے کی بجائے ایک تہوار کی صورت منانے کی روایت بنا لی ہے۔ کبھی محرم منا رہے ہیں ،کبھی ہم ربیع الاول منا رہے ہیں۔یہ سب بجا لیکن ہمارے معاملات میں ان تعلیمات کا عکس نظر نہیں آتا جو دین نے ہمیں سکھائی ہیں۔ ہماری سوچ اور فکر کی تمام توانائیاں تہوار منانے کے عمل کی نذر ہو جاتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے صرف گھروں پہ بتیاں لگانے سے, میلاد منانے سے اور اپنی ڈی پی بدلنے سے پورے نہیں ہو جاتے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اچھا امتی بننے کے جو تقاضے ہیں اس پہ بھی ہمیں کچھ غور و فکر کرنا چاہیے۔ دین کو تہوار کے طور پر منانے کے جو انداز ہمارے یہاں اختیار کر لیے گئے ہیں اس میں ہم یہ بات پس پشت ڈال چکے ہیں کہ ہمارے باہمی معاملات میں دین کی تعلیمات کا عکس نظر آنا چاہیے۔یہ سوال گاہے مجھے پریشان کرتا ہے کہ آخر ہمارے باہمی معاشرتی لین دین میں بددیانتی کے مظاہر اتنے عام کیوں ہیں۔کیوں پاکستان ہر سال انٹر نیشنل کرپشن انڈیکس پر دنیا کے کرپٹ ملکوں میں جگہ پاتا ہے ؟ کیوں ہمیں ایک عام آدمی سے لے کر اہل اختیار تک جھوٹ ,بددیانتی اور کرپشن نظر آتی ہے ؟ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ کیا ہمارے والدین بچوں کو سچائی اور دیانت کا درس دینے سے میں ناکام رہے ہیں ؟یا ہمارے تعلیمی نظام کا قصور ہے کہ ان اداروں سے نکلنے والے لاکھوں طالبعلموں کی عملی زندگیوں میں دینی اقدار کا عکس نظر نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر متحرک نظر آنیوالے یوٹیوبر ہماری آج کی نوجوان نسل کے نمائندے ہیں۔ ان یوٹیوب چینلز پر جس طرح جھوٹ کا کاروبار ہوتا ہے یہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔لائکس اور کمنٹس حاصل کرنے کیلئے بڑے بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں۔کیا یہ دھوکا نہیں ہے کہ آپ جس چیز کا اعلان اپنی ویڈیوز کے تھمب نیل پر کرتے ہیں ویڈیو میں وہ بات ہی موجود نہیں ہوتی۔ یقینا سچ بولنے والے امانتدار بہترین مسلمان ہمارے معاشرے میں موجود ہیں لیکن اخلاقی اقدار کے زوال کی صورت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے سماج میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ بولتے ہیں، امانت میں خیانت کرتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں ،ریاکاری کرتے ہیں، ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں اور چیزوں کو فروخت کرتے وقت جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کو اب بڑی اخلاقی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ اب اسے عام سی عادت سمجھا جاتا ہے۔جھوٹ بول بول کے اب لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ سیاستدانوں کو دیکھیں جو ووٹ لینے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں وعدے کرتے ہیں لیکن ان کو خود پتہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی وعدے ہیں۔ یہاں سیاست جھوٹ کا دوسرا نام ہے۔ سیاستدانوں سے ان کے جھوٹ کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ بڑی سہولت سے اسے ایک سیاسی بیان قرار دے کر اپنے جھوٹ سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ سیاسی بیان کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ایک جھوٹ تھا جو ہم نے سیاسی مفاد کے نظریہ ضرورت کے تحت بولا تھا۔ جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا اب برائی نہیں سمجھا جا رہا۔ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ وعدہ کرنا اور اس وعدے کو پورا کرنا کتنی بڑی ذمہ داری ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ایفائے عہد کی جو مثالیں ملتی ہیں اگر ان کا عشر عشیر بھی ہم اپنی زندگیوں میں شامل کرلیتے اور ایفائے عہد کو اپنے معاملات میں اہمیت دیتے تو شاید سماج کی یہ صورت نہ ہوتی۔ہم معاشرے کے اہل اختیار کو ہی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان میں سے بھی سیاست دان سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ شاید ان پر تنقید کرنا آسان بھی ہوتا ہے۔ اختیار کے جو دوسرے مراکز ہیں ان تک ایک عام آدمی کی رسائی بھی نہیں ہوتی اور اس کے سامنے وہ اتنے ایکسپوز بھی نہیں ہوتے۔ ان کو تنقید کا نشانہ بنانا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مسائل کی جڑ بنیادی طور پر یہی ہے کہ ہمارے معاملات میں سچائی اور دیانت کا عنصر بہت کم ہے۔سچائی، جھوٹ ، بددیانتی، کرپشن، خیانت ،لالچ رشوت پانی کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں۔ میں کبھی سوچتی ہوں کہ اس کی تحقیق ہونی چاہیے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ یہاں سے دیانت رخصت ہو گئی۔ یہاں سے سچائی اور قناعت کی دولت ہی رخصت ہو گئی اور لوگ اور سے اور کی ہوس میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اخلاقیات کے اصول یہاں روند دیے گئے۔ پاکستان کے سرکاری اداروں میں پچانوے فیصد کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتے۔ایک دفعہ ذرا سوچیں کہ ہم اس نبیﷺ کی امت ہیں کہ نبوت تفویض ہونے سے پہلے خالق کائنات نے ان کے لیے دو خوبیوں کو پسند کیا : وہ صادق بھی ہیں اور امین بھی ۔ ایک اور بنیادی خوبی آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ تھی کہ آپ اسلام سے پہلے کے دور جاہلیت میں بھی حیا دار تھے۔ صادق اور امین یعنی سچا ہونا اور امانت دار ہونا۔ یہ صرف دو خوبیاں نہیں بلکہ ان خوبیوں میں ہر انسانی اور اخلاقی وصف کا جوہر موجود ہے۔ یہ تمام تر اخلاقیات کا نچوڑ ہیں۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں۔اور یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میںخالص چیزوں کا ملنا محال ہے۔ ہم تو وہ ظالم ہیں جو بچوں کے پینے والے دودھ میں بھی بدترین ملاوٹ کرتے ہیں۔ کالم کی آخری بات یہ ہے کہ میلاد منائیں ، گھروں کو سجائیں، بتیاں لگائیں لیکن ساتھ اپنا محاسبہ بھی کریں۔ جھوٹ،بد دیانتی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی رشوت خوری، رواداری کے حوالے سے جو احکامات احادیث موجود ہیں ان کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی کوشش بھی کریں۔