پاکستان کی سیاست میں جو کھیل 10 اپریل 2023ء سے شروع ہوا ہے، ایک سال ہونے کو ہیمگر ابھی تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ہر روز صورتحال میں کوئی نا کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ جس طرح ٹی ٹونٹی میچ میں میں صورتحال ہر ایک گیند کے بعد تبدیل ہو تی ہے۔ 1960ء میں اسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کا پہلا ٹائی میچ کھیلا گیا۔ اس میچ کے آخری اوور میں ہر بال پر صورتحال تبدیل ہو رہی تھی۔ آخر کار میچ برابر سکور پر ختم ہو گیا اور دنیا کو پہلا ٹائی ٹیسٹ میچ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو کشمکش جاری ہے خدا کرے کہ اسکا کو ئی اچھا نتیجہ برآمد ہو۔جبکہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسے ادوار ذہن میں آتے ہیں۔ جن سے کوئی اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ 1951ء سے 1958ء تک پاکستانی سیاست کا جو حشر تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ پنجاب میں دولتانہ ممدوٹ کشمکش نے پاکستان کو 1958ء کا مارشل لا دیا۔ اور یوں حکومت سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل کر دوسری قوتوں کے پاس چلی گئی۔ 1970ء کے الیکشن میں مجییب الرحمان کی مقبولیت عروج پر تھی۔ مشرق پاکستان میں عوامی لیگ نے جھاڑو پھیر دیا تھا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کا سہارا لیا اور مجیب کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا۔ اور یوں پاکستان دولخت ہو گیا۔ ہمارے سحر سے نکلنے کے بعد بنگلہ دیش نے کافی ترقی کی اور اب وہ ہم سے بہت بہتر حالات میں ہے۔ اگر اس وقت اکثریت والی پارٹی کو اقتدار دے دیا جاتا تو آج ہمارا حال یہ نہ ہوتا۔ 1988 ء میں جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کا خاتمہ کیا تو سب سے پہلے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی نواز شریف نے جنرل ضیا کا ساتھ دیا اور یوں ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کا خون کر دیا۔ اب ایک بار پھر سیاست دان پھر باہم دست و گریباں ہیں۔اور لگ رہا ہے اس بار بھی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلنے والا۔گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جو بیان دیا ہے اس نے بھٹو کے بیان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے یا عمران رہے گا یا ہم ۔ اور اس سلسلے میں ہم اقدام اٹھائیں گے۔اصولی یا غیر اصولی۔جمہوری یا غیر جمہوری ۔ دوسری طرف عمران خان کسی بھی طور پر سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ انکا نکتہ نظر بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کو سیاست سے آوٹ کرنا چاہتے ہیں۔جو حالات چل رہے ہیں لگتا ہے ایک بار پھر سیاستدانوں پے الزام آئے گا کہ انہوں نے ملک کو کس جگہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔میں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے لکھا تھا کہ آج تک کسی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد منظور نہیں ہوئی اور دوسری طرف کوئی وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کی خوشنودی کے بغیر رہ نہیں سکا۔ لیکن اس بار جو بھی ہو گا -ایک لحاظ سے پہلی بار ہو گا۔ اور ہم نے دیکھا پہلی بار کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ کس طرح پہلی بار عوام نے حکومت کی برطرفی پرمٹھائی تقسیم نہیں کی۔کس طرح عوام سڑکوں پے آگئی اور آجتک سڑکوں پے ہے۔ 10 اپریل سے آج تک پاکستان کی تاریخ میں وہ کچھ ہو ا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اورخدا ناں کرے کہ یہ کچھ بار بار ہو۔الیکشن اعلان ہونے کے بعد ملتوی ہو چکے ہیں اور ابھی تک پاکستان کی سیاست عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہے۔ اکتوبر تک ابھی چھ ماہ سے زائد کا وقت باقی ہے اس وقت تک پاکستان کی سیاست میں کیا کچھ ہو گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت عمران خان مقبولیت کے عروج پر ہیں اور انکی مخالف قوتیں اپنے اقتدار کے عروج پر ہیں۔ اب کس کو زوال آ تا ہے یہ تو تاریخ بتائے گی۔ پاکستان اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے وہ مرسی کا مصر بھی ہو سکتا ہے اور خمینی کا ایران بھی۔ اب حالات نارمل نہیں ہیں۔ اس وقت مزدور بے روزگار ہے اور مہنگائی نے اسکا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ملازمت پیشہ طبقہ پہلے پانچ دن کے بعد ادھار پر گزارہ کرتا ہے۔عوام میں مایوسی بہت زیادہ ہے۔ اشرافیہ کو پتہ نہیں ہے۔ایک وقت آتا ہے جب بھوک انسان کا خوف ختم کر دیتی ہے اور وہ وہ پھر جانور بن جاتا ہے ۔ اس سے پہلے بھوکے جانور بن جائیں ہمارے اشرافیہ کو اپنے اختلافات بھول کر ملک کا سوچنا ہوگا۔ عوام دودھ دینے والی گائے ہے اور ہمارا اشرافیہ دودھ پینے والے ۔ اگر فاقے نے گائے کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو دودھ پینے والوں پر بھی برا وقت آ جائے گا۔ روس کے کمزور معاشی حالات نے اسکے عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کردیا تھا۔ وہ اس وقت بھی بہت بڑی فوجی قوت تھا۔ طاقت روٹی نہیں دیتی – طاقت سے آپ روٹی چھین سکتے ہیں گندم اگا نہیں سکتے۔ تلوار خون چوس سکتی ہے پانی کی پیاس نہیں بجھا سکتی۔ اب الیکشن کب ہوتے ہیں اسکا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ عوام کو اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ اس وقت کساد بازاری نے بہت بڑی بڑی طاقتوں کی لرزا کے رکھ دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کے دو بینک دیوالیہ ہو چکے ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت آٹے کا بحران ہے۔ گرمی میں آٹا تو آجائے گا مگر بجلی کا کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ طبقاتی فرق بہت بڑھ گیا ہے ایک طرف فاسٹ فوڈ کی نئی چین کے باہر رش ہے اور دوسری طرف چائے والہ کہتا ہے کہ میری سیل 25 فی صد رہ گئی ہے لوگوں کے پاس چائے پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ایک سگریٹ والے نے سگریٹ کی ڈبیا قسطوں پے دینے کا اعلان کیا ہے۔اب ایک پلیٹ کے ساتھ دو بندے کھانا کھاتے نظر آتے ہیں خدشہ ہے کہ ایک چائے کا کپ دو بندوں کے درمیاں تقسیم ناں ہو جائے۔آنے والے دنوں میں پاکستان میں دودھ کا بحران یقینی ہے۔ مکئی، گندم اور سرسوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد چارہ کی کاشت بہت کم ہے۔ دودھ اور گوشت قصہ ماضی بننے والے ہیں۔