نہ جانے احمد جہانگیر نے نعت کے یہ اشعار کون سے عالم میں بیٹھ کر اپنی روح کے قرطاس پر اتارے ہیں کہ ان کا منفرد تخلیقی آہنگ پڑھنے والے کی روح کو سرشار کر دیتا ہے ۔ سندھی شاعر حاضر ہو والی نعت کے انوکھے لہجے کو سن کر تو بڑے بڑے چونک اٹھے تھے۔۔ نعت کیا ہے ایک طلسمی دروازہ ہے جو کھلتا ہے اور پڑھنے والے کو ایک انوکھی اساطیری فضا میں لے جاتا ہے۔ پڑھیے اور ایسی منفرد نعت کے لحن سے روح سر شار کیجیے سبز چمکتا در کھل جائے، اور سنگھاسن ظاہر ہو کوئی سخی آواز پکارے، سندھی شاعر حاضر ہو سورج سہرا باندھ کے ابھرے جھل مل کرتی کرنوں کا طوف نبھاتا، وجد میں آتا، اک سیّارہ ناظر ہو پیغمبر ارشاد کریں کچھ مانگ ارے کیا مانگے گا اور عجم کا جاٹ سراسر کچھ کہنے سے قاصر ہو میں لفظوں کا تھال الٹ کر بازو بستہ عرض کروں مولا کوئی حرف نہیں جو پیارا، یکتا، نادر ہو آنکھیں تیرے حسن کی ضو میں، منظر یوں تقسیم کریں نور ترے اقرار کا مظہر، اور اندھیرا کافر ہو جانے والے سب جاتے ہیں اب میرا اسباب بندھے باغیچے کی سمت رواں، یہ سندھو دشت مسافر ہو پانی ربّ کی حمد گزارے، غنچے شہ کی نعت پڑھیں ہستی کے ایوان کا منظر، طیّب، روشن، طاہر ہو احمد جہانگیر ہی کی ایک اور نعت کا انداز اور فضا دیکھیے: فارسی کے کھجوروں بھرے باغ کی، خاک ماتھے پہ ملتا شگْن کے لئے میں بھی بِکتا ہوا جا بہ جا ایک دن، جا پہنچتا مدینے میں اْن کے لئے استعاروں کی رنگین برسات میں، ان کے در سے نگینوں کی خیرات لی اے زمانے، یہ ان کی عطا ہے عطا، یہ جواہر کہاں دیکھ سْن کے لئے سبز ڈفلی پہ پڑتی ہوئی تھاپ نے، خیر مقدم کیا میرے سْلطان کا لحن گونجا فرشتوں کی آواز کا، تار چھیڑا گیا ایک دْھن کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برسا تو دنیا گلابی ہوئی، بس تریسٹھ برس ماہ تابی ہوئی بھاگوانوں کی بستی صحابی ہوئی، پھول شاخوں سے رحمت نے چْن کے لئے بادشاہا، مدینے سے ارشاد ہو، سندھ دریا پہ جوگی کی امداد ہو خاکساری عنایت کی مشتاق ہے، مْنتظر ہے مرا عیب، گْن کے لئے فرش بچھتا ہے آمد کے اعلان کا، چاند، سورج، ستارے، نمودار ہوں لامکانی میں سوئی ہوئی زندگی، بے قراری سے خواہاں تھی کن کے لیے سبحان اللہ نعت کا یہ اساطیری رنگ ایک اور ہی کیفت اور فضا میں لے جاتا ہے۔ ایسے ہی اساطیری رنگ کی ایک نہایت دل پذیر نعت سعود عثمانی کی بھی ملاحظہ ہو: وہ صبحِ منوّر مکّے کی 'وہ جگمگ رات مدینے کی عمّامہ سنہرے ریشم کا 'چادر نیلے پشمینے کی صحرا سے ندا سی آتی ہے راتوں میں مجھ کو جگاتی ہے یہ دل پر تھاپ کسی دَف کی یہ ہْوک کسی سازینے کی ان اونچے ٹیلوں کے پیچھے کوئی ہجر کا نغمہ گاتا ہے ہم ٹھنڈی ریت پہ بیٹھے ہیں'میں اور یہ شب زرّینے کی کل رات یکایک جاگ اٹھے کچھ منظر خفتہ یادوں کے پھر خوشبو آئی قہوے کی پھر تیز مہک پودینے کی میں جو اور دودھ پکاتا ہوں پھر ان میں شہد ملاتا ہوں مرے دل سے رنج مٹاتی ہے تاثیر اسی تلبینے کی اک عنبر صاع کھجوروں کا اک خوشہ سبز انگوروں کا یہ سب یاقوت و زمرد ہیں دولت انمول خزینے کی جو کی روٹی کا نوالہ ہے اک برتن سرکے والا ہے یہ دنیا قیمت کیا جانے مرے مملوکہ گنجینے کی اک کوزہ مجھ کو بلاتا ہے جی بھر کے نبیذ پلاتا ہے پھر پیاس مری بھڑکاتا ہے اک سیرابی میں جینے کی ممکن ہے کہ اک دن یہ دونوں مرے ہاتھ پکڑ کر لے جائیں یہ خواہش عجوہ کھانے کی' یہ حسرت زمزم پینے کی اے خالق عظمتِ ابجد کے' اے خالق نعتِ محمد(ص) کے سکھلا دے لفظ سلیقے کے' بتلادے بات قرینے کی ممکن ہے کہ دوسری دنیا کی تقویم میں بس اک ساعت ہو اس ماہ ربیع الاوّل کی'اس عالم ساز مہینے کی تشکیک زدہ ان لوگوں میں ہم لوگ یقیں پروردہ ہیں ہم آخری منزل جانتے ہیں اس نیلے گول سفینے کی تھک ہار کے آخر جب تجھ تک آئے گی تو دنیا کردے گی تائید سبھی اندازوں کی' تصدیق ہراک تخمینے کی واللہ انہی کے کرم سے ہے' لاریب انہی کے دم سے ہے یہ ندرت میرے لفظوں میں یہ برکت میرے سینے کی شجرے کے آخری کونے پر اک نام سعود بھی لکھا ہے یہ پیڑھی نچلی سیڑھی ہے چو دہ سو سالہ زینے کی نعت ایک صنف سخن تو ہے مگر محض شاعری نہیں بلاشبہ یہ نور وہ عطا ہے جو پروردگار خوش بخت دلوں پر اتارتا ہے۔ سعود عثمانی کے دو اشعار اس حوالے سے دیکھیے: گنتی کے چند لوگ ہیں' گنتی کے خوش نصیب حاصل جنہیں طلائی قلم دانِ نعت ہے سب جانثاروں مدح گزاروں کے درمیاں جگمگ ہے ایک شخص جو حسّانِ نعت ہے