کوئی بھی حکومت اگر اپنے غریب شہریوں کے لیے مفت کھانے کا انتظام کرتی ہیں تو یہ دراصل اس حکومت کی ناکامی کی طرف اشارہ ہے۔یہ پالیسی کامیاب ہو بھی جائے تو ناکامی ہی تصور ہوتی ہے۔کیونکہ ہر شہری کا حق ہے کہ اسے باعزت روزگار ملے اور وہ عزت کی روٹی کمانے اور کھانے کے قابل ہو سکے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں فری فوڈ کو قابل عزت نہیں گردانا جاتاکیونکہ شہریوں کی عزت نفس کی حفاظت بھی ریاست کی ذمہ داری ہے جب کوئی شہری اپنی بنیادی ضرورت کے لئے مفت کھانے یا مفت آٹے کی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہوتا ہے دھکے کھاتا ہے تو اس کی عزت نفس روندی جاتی ہے۔ہم تحریک انصاف کے لنگرخانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور کہتے تھے کہ قوم کو بھکاری بنا کے رکھ دیا ہے لنگر خانوں پر مفت روٹی دینے کی بجائے لوگوں کو روزگار دیجئے۔لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ اس وقت پی ڈی ایم شامل جماعتوں نے بھی کپتان کے لنگر خانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا میں یہ سب سیاسی مخاصمت تھی اس میں غریب پاکستانیوں کا درد شامل نہیں تھااصل میں دونوں ہی اندر سے ایک ہیں۔ مفت آٹے کی تقسیم کا فیصلہ اور ناکامی کے یہ مناظر ،رلتے ہوئے پاکستانی اور خیراتی پالیسی میں بھی بددیانتی کی برتری مثالیں پاکستان کے 75 سالوں کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔حکمران طبقہ اتنا ہی بے حس ہے کیونکہ ان کے اندر بائی ڈیفالٹ ایسی پالیسیاں بنانے کا سافٹ ویئر موجود ہے جس میں ان کے مفادات کی حفاظت ہو ،ان کی ہو س زر کی تسکین ہوتی رہے ، ان کی تجوریاں بھری رہیں اور بھرتی رہیں۔ رہ گئے عوام تو ان کے ساتھ یہ واردات پچھلے 75 سالوں سے جاری ہے کہ وہ اپنے جائز حق کے لئے بھی سرکاری اداروں میں دھکے کھاتے ہیں ان کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے۔ تھانے کچہری کا کوئی کام ان پر آپڑے تو ان کی گھگی بندھ جاتی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ اپنی ہلکی جیب کے ساتھ سرکار کی سرپرستی میں بنی ہوئی ان کمین گاہوں سے اپنا دامن بچا کر نہیں گزر سکتے۔ایک شریف آدمی پاکستان کے اندر اپنے جائز کام کے لیے بھی ٹھوکریں کھاتا ہے پریشان ہوتا ہے۔یہ 75 سالوں سے جاری ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے ہر ٹولے نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کہیں پاکستانی عوام میں اپنی عزت نفس کا احساس نہ جاگ جائے۔حکمران ٹولے میں ہر طرح کی اشرافیہ اور مقتدرہ کا ہر ایوان شامل ہے۔ اسی لئے حکمران ٹولے کو عادت ہے پاکستان کے عوام کی عزت نفس کو اپنی سرکاری پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا کر روندنے اور ذلیل و خوار کرنے کی۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مفت آٹے کی تقسیم کا شوشا ایسی ہی حکمران ذہنیت کا شاخسانہ ہے جو 75 سالوں سے پاکستان کے عام آدمی کی عزت نفس کو سرکاری پالیسیوں سے روند رہی ہے۔کاش کہ کچھ ایسا ہو سکے کہ ان حکمرانوں کو آٹے کی ان قطاروں میں کھڑا کیا جا سکے جس میں یہ دھکے کھائیں۔ لاٹھیاں کھائیں روندے جائیں ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد انہیں کہا جائے کہ تم آٹا لینے کے اہل نہیں ہو۔سرکار نے جن غریب پاکستانیوں کے لیے مفت آٹے کا اعلان کیا ہے کیا وہ سال کے گیارہ مہینے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے ہیں اوررمضان المبارک میں انہیں آٹے کی ضرورت ہے۔ روٹی جیسے بنیادی مسئلے کا حل اس طرح سے ممکن ہی نہیں ہے آٹے کی قیمت عام شہری کی قوت خرید سے بڑھ جانا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایک تھنک ٹینک اس پر بننا چاہیے وہ اپنی تجاویز پیش کریں کہ پاکستان ایک زرعی ملک کے ہوتے ہوئے اس اس طرح کے مسائل سے کیوں دوچار ہے اور ایسے مسائل سے کیسے نکلا جا سکتا ہے۔ اس میں یونیورسٹی کے اساتذہ زرعی اور سماجی سائنس دانوں کو شامل کیا جائے اور خدا کے لئے بے حس سیاستدانوں کو اس سے دور رکھا جائے۔ میں جب اکثر یہ سوچتی ہوں کہ پاکستان پر ایسے، بے حس، بدیانت لوگ کیوں حکمرانی کرتے رہے ہیں آخر ہمیں قائداعظم محمد علی جناح جیسا ایک عظیم دیانت دار حکمران دوبارہ کیوں نصیب نہ ہوسکا۔ مجھے اپنے اس سلگتے ہوئے سوال کا جواب پاکستانی عوام کے کرتوت اور ان کی کارکردگی سے ملتا ہے۔ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا ، دھوکہ دینا، پاکستانیوں کی عادت میں شامل ہو چکا ہے استثنائ،موجود ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ رمضان المبارک میں بھی پاکستانی عبادات کو صرف اعمال تک محدود رکھتے ہیں اور اپنے معاملات میں دیانت اور دین کو نہیں آنے دیتے یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کے ساتھ ناجائز منافع خور اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ چھوٹا دکاندار ہو یا ایک بڑا تاجر ہو ہر کوئی ناجائز منافع خوری میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔یہ بھی تو پاکستان ہی کا ایک چہرہ ہے۔اسی طرح مفت آٹے کے لیے صاحب حیثیت لوگ دھوکہ دہی کے ساتھ جھوٹی پرچیاں بنوا کر آٹا لیتے اور بے پرلے درجے کی بے حسی سے ضرورت مندوں کا حق مارتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی تو پاکستانی عوام کا چہرہ ہے۔آن لائن خریداری میں نوے فیصد پاکستانی اپنے ہم وطنوں ساتھ جھوٹ بولتے، دھوکا دیتے اور بددیانتی کرتے نظر آتے ہیں ۔بدبو سے ہٹا ہوا یہ سارا منظر نامہ میں دیکھتی ہوں تو مجھے اس کا جواب مل جاتا ہے کہ پاکستان میں 75 سالوں سے بد دیانت حکمران کیوں آتے رہے ہیں جیسے لوگ ہوں گے انہیں ویسے ہی حکمران نصیب ہوں گے۔آج 23 مارچ ہے مظلوم عافیہ صدیقی کو 30مارچ 2003کو تین معصوم بچوں کے ساتھ ساتھ اغوا کیا گیا وہ تب سے آج کے دن تک امریکی قید میں ہیں۔ان کا خاندان پل پل تکلیف کے جس پل صراط سے گزر تا ہے میں اور آپ اس کا عشر عشیر بھی نہیں سوچ سکتے۔میں اپنے کالم کے توسط سے مقتدرہ کے اصل ایوانوں میں تشریف رکھتے پردھانوں سے عرض کروں کہ خدا کے لئے اس معاملے پر کچھ غیرت کا مظاہرہ کریں۔سفارتی سطح پر مؤثر طریقے سے بات چیت کریں اور اسی برس کی ناحق قید کاٹتی مظلوم عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے واپس لے کر آئیں۔پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں میں خصوصی دعا کریں کہ ہمارے حکمرانوں کو کچھ غیرت اور احساس نصیب ہو کہ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے نجات دلانے کے لیے سفارتی سطح پر کچھ ہل جل کرسکیں۔