Common frontend top

سجاد میر


پورا سچ کیا ہے


نصف صدی بیت گئی ۔میں سوچ میں پڑ گیا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کا یہ کالم پڑھ کر مجھے ان دنوں کا سارا ماحول یاد آ گیا۔ میں بھی انہی کے ادارے میں کام کرتا تھا۔ ایسے لگ رہا ہے کہ کل کی بات ہے۔2اکتوبر1970ء کو ایم اے کا آخری پرچہ دے کر میں دو بجے دوپہر زندگی کے دفتر اپنی ڈیوٹی سنبھالنے جا پہنچا تھا۔ ایسی سخت ڈیوٹی تھی کہ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ یہ میری پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز تھا۔ وگرنہ لکھتے‘ چھپتے پانچ چھ برس ہو چکے تھے۔ ہاں تو میں اس سخت ڈیوٹی کا
پیر 16 دسمبر 2019ء مزید پڑھیے

علاج نہ انصاف

هفته 14 دسمبر 2019ء
سجاد میر
جنگ کی باتیں یاد آنے لگیں ہیں ارادہ ہے کہ 16دسمبر کے ان لمحوں کو یاد کروں گا جسے ہم بھولتے جا رہے ہیں۔ چلو اس میں تو دو ایک دن کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ تاہم ایک ایسا واقعہ ہو گیا ہے جو ہمیں جنگ کی یاد ایک اور طرح یاد دلا رہا ہے۔ اس کے اثرات اتنے ہی ہولناک ہیں جتنے کسی جنگ کے ہو سکتے ہیں۔ ایک وزیر نے بڑے درد سے پوچھا کہ اگر بھارت لاہور پر خاکم بدھن قابض ہونے پر قابض ہو جاتا تو کیا وہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ایسا دھاوا
مزید پڑھیے


یہ ہے اکیسوی صدی کا مہذب انسان

جمعرات 12 دسمبر 2019ء
سجاد میر
جب بیسویں صدی کا اختتام ہو رہا تھا تو دو ایک برس تو یہی شور مچا رہا کہ یہ صدی 2000ء سے شروع ہو گی یا 2001ء سے۔ کچھ کمپیوٹر کے جھگڑے تھے کہ شاید کوئی دن بدلنا تھا وگرنہ نظام عالم تباہ ہو جائے گا۔ لگتا تھا کہ ہم کسی غیر معمولی تجربے سے گزرنے والے ہیں۔ تاہم یہ بات بڑے اہتمام سے بتائی جا رہی تھی کہ اب غیر معمولی وقت ہو گا چند آسان سی باتیں تھیں کہ نئی صدی امن کی صدی ہو گی۔ بڑے یقین کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ اب دنیا میں اتحاد
مزید پڑھیے


ابھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے!

پیر 09 دسمبر 2019ء
سجاد میر
کبھی کبھی گماں ہوتا ہے، ملک کے حالات ٹھیک ہو رہے ہیں۔ خاص طور اقتصادیات کے میدان میں چند اشارے بتاتے ہیں کہ ہم بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ یہ جو ریٹنگ کے عالمی ادارے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستان کی حقیقت اب منفی سے مستحکم ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ تین سو روپے کلو ٹماٹر خریدنے والا عام پاکستانی یہ سوال اہل علم سے پوچھتا ہے بتائو کیا فرق آیا ہے۔ پہلے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ ان اصطلاحوں کا درست مفہوم معلوم نہ ہو تو آدمی غلط مطلب
مزید پڑھیے


بزدار پلس

هفته 07 دسمبر 2019ء
سجاد میر
عمران خاںکی کپتانی کے طفیل کرکٹ نے سیاست کو کئی اصطلاحیں عطا کی ہیں مگر جو کامرانی وسیم اکرم پلس کو ملی ہے‘ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اب لگتا ہے یہ قرض چکانے کا وقت آ گیا ہے۔ آسٹریلیا سے ہماری ٹیم لوٹی ہے اور اپنے ساتھ ایک اور کردار لے کر آئی ہے۔ کیا خیال ہے مصباح الحق کی ڈسکوری بزدار پلس کی دریافت کے مترادف نہیں ہے۔ ساری دنیا چیخ رہی ہے کہ ایک ہی شخص کی جھولی میں سب کچھ نہ ڈالتے جائو۔ نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ مگر کپتان ہے کہ مان کر نہیں
مزید پڑھیے



ہم تیار ہیں!

جمعرات 05 دسمبر 2019ء
سجاد میر
یار برا نہ ماننا کیا یہ طلبہ یونینوں کی بحالی کی تحریک ہے۔ ایسا ہے تو میں ایمان لایا، مگر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پوچھنا تو بنتا ہے اگر یہ طلبہ یونینوں کی بحالی کی تحریک ہے تو مجھے تو بہت خوش ہونا چاہیے کہ میں تو ان تحریکوں کا پروردہ ہوں۔ پاکستان میں جب طلبہ تحریک کا ذکر آتا ہے تو کراچی والوں کا حوالہ دوسرا ہوتا ہے، لاہور کا دوسرا۔ کراچی والے 53 سے آغاز کرتے ہیں۔ اس وقت یہ تحریک بائیں بازو کی تحریک تھی۔ 12 طلبہ شہر بدر ہوئے تھے۔ وہ ساری زندگی اسی
مزید پڑھیے


کلچر کی جنگ

پیر 02 دسمبر 2019ء
سجاد میر
گزشتہ دنوں ایک کالم لکھا تھا کہ این جی او کی سواری آ رہی ہے۔ آغاز اس فقرے سے کیا تھا کہ فیض احمد فیض ایک این جی او کا نام ہے۔ وجہ اس کی عاصمہ جہانگیر پر ایک تین روزہ عالمی کانفرنس بنی تھی جس میں دنیا بھر سے لوگوں کے پَرّے کے پَرّے شریک ہوئے تھے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ طلبہ یونین کی بحالی کے نام پر ایک کلچر کی ریلی ہے۔ اس ریلی کی ریہرسیل درمیان میں ایک فیض میلے میں نمودار ہوئی تھی۔ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جن پر ایک لمبے
مزید پڑھیے


خطرے کی گھنٹی

هفته 30 نومبر 2019ء
سجاد میر
کیا یہ صرف نا اہلی کا معاملہ ہے۔ ایسا ہے تو اللہ کا شکر ہے ہم صرف نا اہل ہی ہیں۔ کوئی اور معاملہ نہیں ہے۔ کوئی سازش نہیں ہے۔ یہ خیال اس لیے پیدا ہو رہا تھا کہ ہم نے دو تین ماہ سے طرح طرح کی سازشی افواہیں پھیلا رکھی تھیں۔ اس میں نازک بات یہ ہے کہ ان میں کوئی ایک بات ایسی نہیں ہے جسے کھلے دل سے بیان کیا جا سکے اور اس سے بھی نازک تر معاملہ یہ ہے کہ ہر بات کی طرف کھلم کھلا اشارے ہو رہے تھے۔ اگر ان باتوں پر
مزید پڑھیے


کیا ہمیں پاکستان سے محبت نہیں!

جمعرات 28 نومبر 2019ء
سجاد میر
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔ مجھے تو آج معلوم ہوا کہ یہ کائنات بھی ابھی ناتمام تھی۔ پوری قوم ایک عجیب مخمصے میں ہے کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ ہمارے قانون اور آئین میں یہ طے ہی نہیں ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے مضبوط منصب دار کتنے سال کے لئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر تو یہ درست ہے کہ ایک بار جو آ گیا‘ اس کا جانا اس کی مرضی اور حالات کی منشا کے مطابق ہوتا ہے۔ ایوب خاں ہمارے پہلے آرمی چیف تھے وہ تب تک رہے جب تک حالات
مزید پڑھیے


ہماری نئی تزوینی جنگ

پیر 25 نومبر 2019ء
سجاد میر
اللہ کرے ہمیں عقل آ چکی ہو اور ہم نے اس بات کا احساس کر لیا ہو کہ ہم سی پیک کے حوالے سے ایک بڑے مغالطے میں مبتلا کیے جا رہے تھے۔ میں نے یہ گفتگو عمران خان کی حکومت آنے کے بعد شروع نہیں کی تھی۔ اس سے پہلے ہی حکمرانی کے بعض قرینے دیکھ کر کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم سی پیک سے منہ موڑ لیں۔ یہ گویا ایک پیکج تھا جس پر ہم سے
مزید پڑھیے








اہم خبریں