تو امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے۔ نہ جائو سیاں چھڑا کے بیاّں کی سریلی تانیں ہمارے کسی کام نہ آئیں۔ بائیڈن کا دل نہ موہ سکیں۔ وہ کہتا ہے اب نکلنا ہمارا حتمی فیصلہ ہے ہم اب نہیں رکیں گے ۔کوئی اداس ہو یا خوش‘ ہم تو چلے سودیش! ادھر طالبان کے حملے تیز ہو گئے ہیں۔ دو ماہ پہلے کی بات ہے‘ ایک تہائی یعنی لگ بھگ 30یا 33فیصد رقبہ ان کے پاس تھا‘ اب اطلاع ہے کہ 42فیصد سے بھی زیادہ علاقہ ان کے پاس ہے اور یہ رفتار خاصی تیز ہے۔ خاص طور سے یہ بات اہم ہے کہ جوں جوں ان کے زیر قبضہ علاقہ بڑھتا جائے گا توں توں ان کی رفتار بھی بڑھنے لگے گی۔ لیکن ابھی تک انہوں نے جو رقبہ قبضے لیا ہے وہ زیادہ تر صحرائوں‘بیابانوں اور دیہی اور قصباتی علاقوں پر مشتمل ہے۔ کوئی ’’اربن سنٹر‘‘ ان کے قبضے میں نہیں ہے۔بلخ نہ مزار شریف‘ قندھار نہ ہرات‘ جلال آباد نہ شیر بندر۔ پچھلی بار انہوں نے باری باری سارے اربن سنٹر اپنے قبضے لے لئے تھے‘ پھر کابل پر یلغار کی تھی اور اسے بھی سر کر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس بار ان کی سٹریٹجی دو طرفہ ہے۔ یعنی اربن سنٹرز کی طرف یلغار جاری رہے گی لیکن ساتھ ہی کابل پر بھی ہلہ بولا جائے گا، کابل کے مضافات میں وہ موجود ہیں۔ کسی بھی دن دارلحکومت پر حملہ شروع ہو جائے گا ،لیکن انہیں پتہ ہے کابل کا دفاع اس بار زیادہ مضبوط ہے۔ سوویت روس کے نکلنے کے بعد کابل سرکار کے پاس ناقص روسی ہتھیار تھے‘ اس بار جدید امریکی اسلحہ ہے۔ کابل کی جنگ ہتھیاروں سے زیادہ ’’سیاست‘‘ کی جنگ ہو گی۔ سرکاری فوج میں جتنی جلدی بددلی اور انتشار وہ پھیلا سکیں‘ اتنا جلد کابل فتح ہو جائے گا۔ افغانستان پر مکمل قبضہ اتنا آسان نہیں۔ امکانات دونوں طرح کے ہیں۔ایک یہ کہ طالبان سارے نہ سہی‘اکثر علاقے فتح کر لیں اور کابل بھی اور دوسری صورت کہ جنگ ابھی لمبی چلے کیونکہ شہری آبادی طالبان کی حامی نہیں۔ ماضی کی صورت حال سے بالکل مختلف۔ ماضی میں کیا شہری کیا دیہاتی‘ سب کی اکثریت طالبان کے ساتھ تھی۔ اس بار شہری آبادی طالبان سے ڈرتی ہے۔ عورتوں کو کوڑے مارنے اور انہیں سنگسار کرنے کی ویڈیوز شہری علاقوں میں گھر گھر پھیلائی جا رہی ہیں۔ سب کے پاس موبائل فون نہیں ہیں اور جن کے پاس نہیں ہیں۔ انہیں بلا کر یا گھر جا کر یہ فلمیں دکھائی جا رہی ہیں۔ جو بھی صورت حال ہے،خانہ جنگی سے بچنا نظر نہیں آتا۔ طالبان ماضی میں یعنی پرویز مشرف سے پہلے پاکستان دوست تھے۔ بلکہ دوست کیا معنے‘ پاکستان پرست تھے لیکن نائن الیون کے بعد بہت کچھ ان کی توقعات کے برعکس ہوا۔ ملا ضعیف افغانستان کے سفیر تھے۔ ان سے جو سلوک ہوا‘ وہ بیان کے قابل نہیں۔ پاکستان بھر میں طالبان کو پکڑا گیا۔ پکڑ کر مار دیا گیا یا امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ ان پر لامتناہی بمباریاں ہوئیں‘ پرویز مشرف کے دیے گئے اڈوں سے اڑانیں بھری گئیں۔اب ان کی سوچ کیا ہے۔ اندازہ لگانا بالکل آسان ہے۔ آج کے طالبان کے رابطے روس‘ چین‘ بھارت‘ ایران سے ہیں۔ وزیر اعظم طالبان کی مکمل فتح کے خلاف بیان دے چکے ہیں۔ اس سے طالبان نے کیا محسوس کیا ہو گا۔ بھلے کی امید رکھنے اور برے کا خدشہ بھی ذہن میں ہونا چاہیے اور اس حوالے سے تیاری بھی۔ ارے۔روانی میں یہ کیا لکھ گیا‘تیاری؟ اللہ اللہ۔ ٭٭٭٭ کوئی ملک خانہ جنگی کے دوزخ میں گرتا ہے تو جلدی نہیں نکلتا۔ افغانستان کے لئے دوزخ کا یہ دورانیہ کچھ زیادہ ہی لمبا ہو گیا۔1979ء میں سوویت یونین کے قبضے کے بعد سے یہ ملک امن کے دن دیکھ ہی نہیں سکا۔ چالیس سال سے مسلسل خونریزی ہو رہی ہے۔ روس نکل گیا۔ طالبان آ گئے‘ پھر امریکہ قابض ہو گیا اور اب امریکہ بھی جا رہا ہے۔ ان طویل چالیس برسوں میں اندازہ ہے کہ پندرہ سے بیس لاکھ افراد مارے گئے۔ سوویت دور میں سوویت یونین نے بارہ لاکھ افغان مارے امریکہ کے دور میں امریکہ نے کم مارے‘ افغانوں کے ہاتھوں افغانوں کا قتل عام زیادہ ہوا۔ ٭٭٭٭ ترکی کا کردار قابل غور بھی ہے اور اس پر تحفظات بھی ہیں۔ ترک فوج کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کے علاوہ کوئی اور ڈیوٹی بھی دینے والی ہے۔ مزید ترک فوج آئے گی۔ افغانستان کی ترک قومیں اس پر خوش ہیں۔ ازبک ‘ تاجک زیادہ بڑی قومیں ہیں‘ پھر کرغیز اور ترکمان بھی ہیں۔ ان کے بعد ہزارہ قبائل ہیں۔ یہ سب ترک ہیں۔ ترکی میں اسلامی تشخص والی حکومت ہے لیکن اس کا قوم پرست رنگ بھی ساتھ ساتھ ہے۔ شام اور شمالی عراق میں اس نے ترکمانوں کو بچایا۔ترک نسل کے آذر بائیجان کو اس کا کھویا ہوا علاقہ آرمینیوں سے دلوایا۔ افغانستان میں ترکی کا سب سے بڑا اتحادی رشید دوستم ہے،جو ہرگز اسلام پسند عناصر میں نہیں گنا جاتا۔ خونخوار قسم کا قوم پرست۔ بہرحال مذہبی اور قوم پرستی ساتھ ساتھ بھی چلتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ قوم کا ’’فیکٹر‘‘ تمام دیگر پر غالب رہتا ہے۔ دونوں عالمی جنگوں‘ نپولین کی بڑی جنگ سمیت زیادہ تر جنگیں قوم پرستی کے لئے لڑی گئیں۔ مذہب کو بدنام کیا گیا حالانکہ مذہب کے نام پر جنگوں میں مارے جانے والے لوگ قوم پرستی کی جنگوں میں مرنے والوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ تاریخ خود دیکھ لیجیے۔