شاہین باغ اب محض ایک پتہ نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس کا سلسلہ 1857 ء سے ملتا ہے۔ جی ہاں، 1857 ء میں جس طرح انگریزوں کے مظالم اور ناانصافی کے خلاف بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں ایک بغاوت پھوٹ پڑی تھی، ویسے ہی نریندر مودی کے خلاف شاہین باغ سے ایک بغاوت کا نقارہ بج اٹھا ہے اور جیسے سنہ 1857 کی بغاوت نے دہلی سے پھیل کر سارے ہندوستان کو اپنی چپیٹ میں لے لیا تھا، ویسے ہی شاہین باغ سے شروع ہونے والی بغاوت بھی ہندوستان کے شہر شہر پھیل چکی ہے۔ 1857ء میںآزادی کی جنگ تھی اور شاہین باغ بھی کسی جنگ آزادی سے کم نہیں ہے۔ اس وقت انگریزوں کی غلام بنانے کی سازش کے خلاف بغاوت تھی اور اس وقت آر ایس ایس کی مسلمانوں کو غلام بنانے کی سازش کے خلاف جنگ ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت علم بغاوت مردوں کے ہاتھوں میں تھا اور اس وقت علمبردار عورتیں ہیں۔ جی ہاں، شاہین باغ سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی کمانڈو ہماری مائیں، بہنیں اور نوجوان بچے ہیں۔ یہ تحریک ایک انوکھی تحریک بن چکی ہے جس میں مائیں اور بہنیںآزادی کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ رے ان عورتوں کا جوش و ولولہ۔ ایک ٹی وی رپورٹر نے جب ایک سن رسیدہ عورت سے کہا کہآپ کو تو پانچ سو روپے کی اجرت پر یہاں لایا گیا، تو انھوں نے فوراً جواب دیا کہ کسی کی کیا مجال کہ ہم کو اجرت دے۔ ارے یہ ہمیں اس ملک سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں، ہم یہاں اس کے خلاف اکٹھا ہوئے ہیں اور اس وقت تک یہاں بیٹھے رہیں گے جب تک ہماری مانگ نہیں پوری ہوگی۔ حجاب باندھے ہوئے نوجوان لڑکیاںآئین اور اس کے پری ایمبل پر اس طرح تقاریریں کر رہی ہیں جیسے کوئی ماہرآئین بولے۔ یہ جوش و ولولہ اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا جذبہ اس لیے ہے کہ ہندوستانی مسلمان کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ اگر اب وہ دب گیا تو بس پھر بی جے پی غلامی کا پھندہ گلے میں ڈال دے گی۔ شاہین باغ سے شروع ہونے والی جنگ آزادی تحریک نے ہندوستانی مسلمان کو ایک گہری غفلت سے جیسے جگا دیا ہو۔ اس قوم میں اس وقت جیسی سیاسی بیداری پیدا ہوئی ہے اس کا تصور پہلے کبھی کیا نہیں جا سکتا تھا۔ ہندوستانی تاریخ میں کبھی بھی کسی جدوجہد میں ایسی کثیر شرکت نہیں رہی جیسی اس تحریک میں ہے۔ ارے یہ وہ عورتیں ہیں جو کل تک گھروں کی چہار دیواری تک سمٹی ہوئی تھیں،آج وہی عورتیں میدان جنگ میںآزادی کے لیے پہلی صف میں لڑ رہی ہیں۔ یہ سیاسی شعور کی انتہا ہے۔ پھر کل تک مسلمانوں کی ہر تحریک محض مذہبی علاقوں تک محدود ہوتی تھی۔ لیکن اس تحریک میں کوئی مذہبی نعرہ نہیں۔ اس تحریک کی سب سے بڑی علامت ملک کاآئین ہے۔ اور اس تحریک کی مانگ ہے کہ ہندوستان اپنی سطح پر ایک سیکولر ملک ہے اور کوئی اس کو ہندو راشٹر نہیں بنا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ آئین کے تحفظ اور سیکولرزم کی بقا کے لیے ہندوستان میں اب تک اتنی بڑی تحریک اس ملک میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ یعنی شاہین باغ سے اٹھنے والی تحریک سیاسی سطح پر ایک جدید ترین سیکولر تحریک ہے جس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جدید سیکولر تحریک کی علمبردار وہ قوم ہے جس کو سب سے زیادہ قدامت پسند تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن آج وہی مسلم قوم، حد یہ ہے کہ اس کی عورتیں بھی اس ملک میں وہ انقلاب بپا کیے ہوئے ہیں جس کا تصور پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔آخر یہ تبدیلی کیوں،آخر اس قوم کے پاس یہ سیاسی شعور کہاں سے آیا؟ جب کسی قوم پر ظلم و ستم کے کوہ گراںآئے دن پھٹ پڑیں تو اس کے سامنے صرف دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو وہ ظلم برداشت کرتی رہے اور غلاموں کی طرح جیتی رہے، یا پھر وہ اپنی جان کی بازی لگا کرآخرآزادی حاصل کر لے۔ پچھلے تقریباً تیس برس میں ہندوستانی مسلمان پر مستقل مظالم کی وہ مار رہی جس کی مثال نہیں ملتی۔ سنہ 1992 ء میں محض بابری مسجد نہیں شہید کی گئی بلکہ اس کی مذہبی آزادی اور شناخت پر سیندھ لگا دی گئی۔ اور پھر وشو ہندو پریشد نے مسجد گرا کر سارے ملک میں مسلم خون سے ہولی کھیلی اور پھر اپنی فتح کا جشن منایا۔ ابھی وہ زخم بھرا بھی نہیں تھا کہ دو ماہ بعد ممبئی میں مسلمانوں کے خلاف ایسا فساد ہوا کہ سنہ 1947 کے فساد شرمندہ ہو گئے۔ پھر چند برس بعد گجرات میں سنہ 2002 ء میں نریندر مودی کی قیادت میں ایسی مسلم نسل کشی ہوئی کہ دنیا لرز گئی اور پھر سنہ 2014 ء سے اسی نریندر مودی نے ہندو راشٹر کا نقارہ بجا کر باقاعدہ مسلم غلامی کا علم بلند کر دیا۔ کبھی موب لنچنگ تو کبھی اذان پر اعتراض۔ پہلے نفسیاتی طور پر غلام بنانے کی کوشش اورآخر میں 2019 ء کی فتح کے بعد باقاعدہ این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کے تمام حقوق سلب کر پوری طرح غلام بنانے کی تیاری ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ اب مسلمان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ یا تو غلامی تسلیم کرتا یا پھر وہ جنگ آزادی کا طبل بجاتا۔ اور شاہین باغ سے وہی آزادی کی جنگ کا طبل بج اٹھا جس کی گونج اب سارے ہندوستان میں سنائی پڑ رہی ہے۔ اب یہ جنگ فتح کا پرچم لہرانے کے بعد تھمے گی خواہ اس میں کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔ لیکن یاد رکھیے کہ شاہین باغ دو دھاری جنگ ہے جس کو دو سطح پر لڑنا ہے۔ یہ جنگ آزادی ہے جس میں پہلی لڑائی نریندر مودی اور بی جے پی کے خلاف ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ خود مسلمان کو اپنی سماجی غلامی کی تمام علامتوں کے خلاف بھی جنگ لڑنی ہوگی۔ بس شاہین باغ سے جو انقلاب اٹھا ہے، وہ اب تب ہی تھمے گا جب یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جاتے اور شاہین باغ کا جوش و ولولہ اس بات کا ضامن ہے کہ کامیابی مل کر رہے گی۔ (بشکریہ سیاست: بھارت)