زندگی کے طوفان کا بہاؤ اس قدر تیز ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا کبھی تو برسوں تک ممکن ہی نہیں رہتا۔ جانے کیوں ہمارے دلوں میں ایسا کوئی خوف بیٹھ گیاہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والازندگی سے ہی پیچھے رہ جائے گا۔بچپن کی پڑھی کہانیوں میں ایسی طلسم نگریوںکابھی تذکرہ ہوتاتھاکہ جہاں پیچھے مڑ کے دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا تھا، اور پھر جانے کتنی صدیوں تک وہ پتھر ہی کا رہتا تھا، تاآنکہ کوئی پتھروں کو انسان بنانے والا اسم یا وظیفہ لے کر ان میں دوبارہ زندگی پھونک دیتا۔خدا معلوم ہمارا آگے ہی آگے بڑھتے جانے کا یہ جنون جدید دور کا عطا کردہ فیشن ہے یا بچپن میں پڑھی انھی کہانیوں کا کوئی اثر ۔ بات لیکن یہ ہے کہ ہم جتنا بھی آگے بڑھ جائیں اور ہم جہاں بھی پہنچ جائیں ،ماضی کبھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ہم کبھی ماضی کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتے۔خاص طور پر مجھ جیسے وہ لوگ جو کسی افتادکے تحت یا رزق کی تلاش میں شہروں میں آبستے ہیں ، وہ اپنے اندرکا گاؤں کبھی اندر سے نکال نہیں پاتے ۔ شہر کی چکاچوند، بے تحاشا مصروفیات اور سوچ و فکر تک کو جکڑ لیتے معاملات برسوں تک گاؤں کے متعلق سوچنے نہیں دیتے ،اور یوں لگتا ہے گاؤں کو ہم لوگ یکسر بھول گئے۔ دور تک پھیلے سبزے کی مخملیں چادریں ، زمیں پر ہریالی کا قالین بچھا دینے والی تاحدِ نگاہ تک بچھے کھیت اور آسمان کے ساتھ تانکا جھانکی کرتے ادھر ادھر بکھرے اشجار۔کھیتوں میں دھول اڑاتے کچے راستے اور ان راستوں پر میلے کپڑوں میں چلتے پھرتے اجلے لوگ۔فطرت کی مسرتوں سے جھولتے درخت اور ان درختوں کی ٹہنیوں پر جھومتے پھل پھول ۔ محسوس یہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارے دلوں نے شہر کی بلند وبالا عمارتوں ، روشنیوں میں ڈوبے پلازوں ، فائیو سٹار ہوٹلوں کے مرتب عشائیوں اورکارپٹڈسڑکوں پر بہتی گاڑیوں نے ہم سے چھین لیے اور وہ سب ہم نے ان سب پر قربان کردیا۔ پھر لیکن کسی ایک لمحے پورے کا پورا گاؤں دل پر کسی کتاب کی طرح یوں نزول کرتاہے کہ پہروں اس پہر کے سحر سے ہم خود کوآزاد نہیں کر پاتے۔گاؤں یاد آتا ہے تو آتا چلا جاتاہے۔ اب کے لیکن دل چیر دینے والی خبر گاؤں سے موصول ہوئی ۔سرکار کے کئی سکیورٹی اداروں سے اپنی جوان چھاتی اور جنون کے بل پر گزر کروفاقی اینٹی ٹیررسٹ ڈیپارٹمنٹ میں خدمات سرانجام دینے والے دوست رشید احمد سے بات ہوئی تو دیر تک گاؤں کی یاد حال سے بے حال کرتی رہی ؎ دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا ہم سبق دوست جاوید اقبال کا تذکرہ ہوا تو عجب کہانی سننا پڑی ۔ اداس کردینے والی اور اپنے نظام عدل سے دل اچاٹ کر دینے والی۔پتہ چلا کہ ہمارے ہم سبق جاوید اقبال کے والد پر عجیب افتاد آن پڑی ہے۔ یہ اقبال صاحب فوجی تھے ، پھر شاید ریٹائرڈ ہوگئے۔جاوید اقبال لوگ تین بھائی تھے اور گاؤں سے کافی دور اپنی زمینوں پر ان کا بسیرا تھا۔ سکول تو گاؤں سے دور ہی تھا مگر انھیں کچھ زیادہ دور پڑتا۔ یہ مگرپڑھنے آیا کرتے۔ہمارے لیے ان بھائیوں میں خصوصی دلچسپی یہ تھی کہ فوجی کا گھرہونے کے باعث ان کے گھر میں اسلحہ کاخصوصی اہتمام رہتا۔ کئی بار یہ چھروں والی گن سکول بھی لے آتے ، جو کہیں چھپا دی جاتی اور چھٹی کے بعد اس سے درختوں پر بیٹھے پرندوں کاشکار کیا جاتا۔کبھی چھٹی میں زیادہ مرتب طریقے سے شکار کی منصوبہ بندی بھی کر لی جاتی۔یہ لوگ تو کچھ نہ کچھ گرا لیتے ، ہاں اس عاجزکے فائر سے ہمیشہ پرندے مسکراتے ہوئے اڑ جاتے۔باہم کہانیوں کی کتابوں کے بھی تبادلے ہوتے۔اسی جاوید اقبال کے بارے معلوم ہوا کہ تلاشِ معاش میں یہ لوگ گاؤں چھوڑ کے قریب و دور کئی جگہوں پر بسیرا کرتے رہے۔پھر جی ٹی روڈ پر واقع محسن وال نامی بستی میں آگئے۔گاؤں کے اعتبار سے یہاں ایک بہترین گھر لے لیااور رہنے لگے۔ یہ گھردو بھائیوں میں سے ایک کی ملکیت تھا، جواسے بیچ کے کہیں اور جا بسا تھا۔ نو واردوں کے تعلقات مکان کے سابقہ مالک کے بھائی سے بہت شاندار تھے۔دوستی تھی اور پڑوس بھی تھا۔گاؤں دیہات میں لوگ ویسے بھی جلد گھل مل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہتے ہیں۔ یہ اس دن کی بات ہے ،جب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، ہلکی ہلکی رم جھم ہو رہی تھی اور موسم روحوں تک میں شادمانی بھر رہاتھا۔ ہمسائے نے شکار کا کہاتویہ گھر سے بارہ بور بندوق اٹھالائے۔ ہمسائے کے کمرے سے صحن میں موجود درخت پر بیٹھے پرندوں پر فائر کیا گیاتواچانک اس فائر کے سامنے پڑوسی کی بیوی آگئی۔لمحوں میں قیامت گزر گئی۔ سارا کارتوس اس کے دماغ میں اتر گیا۔ خاتون گری ، تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ہمسایہ ساتھ بیٹھا تھا، سب اس کی نگاہوں کے سامنے ہوا تھا۔ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ اس نے صبرشکرکر لیا۔ اس کی طرف سے کوئی شکوہ شکایت نہ کیا گیا ۔ اقبال صاحب اور ان کا گھرانا تجہیز و تکفین میں شریک رہے۔ارد گرد کے سب لوگ ان معاملات کے گواہ تھے۔پھر لیکن جانے کب پڑوسی بدلا اور اس نے اقبال صاحب کے خلاف تین سو دو کا پرچہ دے دیا۔تفتیشی کو بھی ساتھ ملا لیا۔ حالانکہ یہ ایک بالکل واضح اور ہر طرح کے شکوک و شبہات سے پاک سانحہ تھا مگر لگتا ہے وہ پڑوسی کسی کے کہنے پر یا از خود لالچ میں آگیا۔ اہلِ محلہ اور رشتے داروںنے شرم دلا کے صلح کرنے کی بات کی تو اس نے یہ شرط رکھ دی کہ یہ لوگ اپنا گھر اسے بیچ دیں۔ وہ تیار ہوگئے۔ اونے پونے اس نے گھر خرید لیا مگر صلح پھر بھی نہیں کی۔ رشتے داروں نے کچھ پیسے ملا کر تھانے میں دئیے مگریہ پیسے اتنے موثر نہ ثابت ہوسکے۔دن دہاڑے قتلِ خطا کو قتلِ عمد میں بدل دیا گیا۔ ظلم کے خلاف کسی کا بس نہ چل سکا۔ سیشن کورٹ سے اقبال صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی ، ہائیکورٹ نے جسے عمر قید میں بدل دیااورآج اقبال صاحب کو یہ سزا کاٹتے کوئی آٹھ سال بیت چکے ہیں۔ ظاہر ہے ،سارا گھرانا بکھر کے اور ٹوٹ کے رہ گیا۔جو ان مظلوموں پر بیتی اسے کہنے کی نہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایک اقبال صاحب کی کہانی ہے ، جانے ہماری پولیس اور نظامِ عدل کے شکنجے میں جکڑے کتنے ہی اور اقبال اپنے ناکردہ جرموں کی سزا کاٹ رہے ہوں گے۔جی میں آتاہے ، کاش چیف جسٹس صاحب کوئی ایسا با اختیار ادارہ بنا جائیں۔ جو اس طرح کے کیسوں کا جائزہ لے کر سینکڑوں خاندانوں پر ٹوٹتے نظامِ عدل کے ظلم کا جائزہ لیا کرے۔دل تو یہ بھی چاہتا ہے ، کاش عدل کاچیف اقبال صاحب کو مزید سزا سے چھٹکارہ دلا سکے۔جن کا عالم یہ ہے کہ ؎ میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا اسی سیاق و سباق میں یہ شعر متوجہ کرتا ہے ؎ میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا زمیں زادوں کے لیے زندگی پوری طرح مطیع تو کبھی اور کہیں نہ ہوسکی، اتنی دشوار بھی مگر یہ کب تک رہے گی ، جتنی میرے اہل وطن پر یہ کر دی گئی؟