ایل این جی ریفرنس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ایل این جی ٹرمینل کی منظوری مجاز فورم نے دی۔ نیب کا یہ کیس تھا ہی نہیں کہ شاہد خاقان عباسی نے کوئی مالی فائدے حاصل کئے۔ نارووال سپورٹس کمپلکس کے ریفرنس میں بھی ہائی کورٹ نے احسن اقبال کی گرفتاری کو نیب کا اختیارات سے تجاوز کرنا قرار دیا اور کہا کہ احسن اقبال پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں اور ریکارڈ پر ایسا کچھ ہے اور اس منصوبے کی منظوری مجاز فورمز نے دی۔ نیب کرپشن کے حوالے سے کوئی مواد نہیں پیش کر سکا۔ خواجہ آصف کی رہائی بھی اسی طرح کے ریمارکس کے ساتھ عمل میں آئی اور کہا گیا کہ خواجہ آصف نے قومی خزانے کو کچھ نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ دو روز میں آنے والے تین فیصلے ہیں۔ اس سے قبل مفتاح اسمعیل ‘سعد رفیق وغیرہ کی درخواست ہائے ضمانت میں بھی ملتے جلتے فیصلے آئے تھے۔ نادان لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ پھر ان لوگوں کو کس جرم میں اندر رکھا گیا؟نادان اس لیے کہ 2014ء سے جو کشمکش شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے پلوں کے نیچے اتنا شفاف پانی بہہ نکلا ہے کہ سب کچھ عیاں ہے۔ اس کے باوجود ایسے سوال پوچھنا اگر نادانی نہیں تو ستم ظریفی ضرور ہے۔ پوچھنے کو تو خیر یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ پانامہ کیس میں لگ بھگ’’ہزار‘‘ ملزموں کے نام شامل تھے۔ نواز شریف کو جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق نام نہ ہونے کے باوجود عمر بھر کی سزا سنا دی گئی‘ باقی کا کیا بنا؟ کیا کسی ایک کے خلاف کوئی تنکا بھی ہلا؟ اور پوچھنے کو تو یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کو سات سال کی سزا سنانے والے جج کا اعترافی بیان کہ اسے اس کی قابل اعتراض فلم بنا کر ڈرا دھمکا کر سزا سنانے پر مجبور کیا گیا اور سزا غلط تھی‘ جھوٹا ہے کہ سچا؟جھوٹا ہے تو جھوٹ گھڑنے والے کو پکڑا کیوں نہیں گیا؟ فارنزک کرانے سے حکومت کیوں ڈرتی رہی اور سچا ہے تو نواز شریف کی سزا ختم کیوں نہیں کی جا رہی؟نوٹ(ملتان سے ایک بندہ پکڑا گیا جس نے ویڈیو بنا ئی اور خریدنے والے عناصر ابھی بھی برطانیہ نواز شریف کے پاس بیٹھے ہیں۔معاملہ مشکوک ہوا نا۔ ) سوال بہت ہیں لیکن پوچھنے سے معیشت کی درست پٹڑی پر چڑھتا ہوا ملک کہیں ڈی ریل نہ ہو جائے‘ اس کا ڈر ہے۔ اس لئے مثبت رپورٹنگ کا تقاضا ہے کہ جو ہو رہا ہے‘درست ہو رہا ہے اور جو نہیں ہو رہا وہ بھی درست ہو رہا ہے مثبت رپورٹنگ کا ایک دور ایوب خاں کے زمانے میں گزر چکا ہے۔ جب مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر نشر کرنے‘ بیان شائع کرنے پر پابندی بھی اور سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ اخبارات یہ خبر بھی نہیں دے سکتے تھے کہ ان پر پابندی ہے۔ ٭٭٭٭ گزشتہ ہفتے ایک عالمی ادارے رپورٹرزودآئوٹ بارڈز کی ایک رپورٹ دنیا بھر کے میڈیا میں چھپی‘ پاکستان البتہ اس کی اشاعت سے محروم رہا۔ رپورٹ میں پاکستان کی صحافت کو پابہ زنجیر دکھایا گیا۔ اخبارات اور ٹی وی پر پابندیاں‘ سخت سنسر‘ صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا، میڈیا کے خلاف مالیاتی ہتھیاروں کا استعمال‘ صحافیوں کی برطرفیاں پروگراموں پر پابندی وغیرہ‘ غرض طرح طرح کی لایعنی خرافات پاکستان کے کسی اخبار نے اس خبر کو جگہ نہیں دی۔ اچھی بات ہے۔ حکومت نے اس کی تردید بھی نہیں کی۔ یہ اچھی بات نہیں۔ بھلے لوگو‘ تردید تو کر ہی دیتے‘کیا پتہ لیڈ سٹوری ہی چھپ جاتی! ٭٭٭٭ پچھلے ہفتے کی ایک دل خوش کن خبر یہ تھی کہ وزیر اعظم نے پروٹوکول نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال ہوا‘ تین سال تک تاریخی اور تاریخ ساز پروٹوکول کے مزے لینے کے بعد وزیر اعظم کا دل بھر گیا ہے۔ خبر کی تفصیل دیکھی تو پتہ چلا کہ صرف نجی تقریبات میں پروٹوکول نہیں لیں گے۔ اب اسے کیا کہیے۔ نجی تقریبات کی تعریف کیا ہے۔ سرکاری دوروں اور سرکاری تقریبات میں وہی تاریخی اور تاریخ ساز پروٹوکول جاری رہے گا۔ لطیفہ یاد آ گیا‘ ایک خوش خوراک کے سامنے دو درجن روٹیاں رکھ دی گئیں۔ بولے‘ اتنا بھوکا سمجھ رکھا ہے کیا؟ اتنا پیٹو نہیں ہوں‘ یہ ایک روٹی واپس لے جائو۔ یہاں تو واپس لی جانے والی روٹی کا معاملہ بھی مشکوک ہے‘ نجی تقریبات والی روٹی۔ کل خلاصہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم اپنے وعدے کے مطابق‘ ہالینڈ کے وزیر اعظم کی طرح‘ سائیکل پر دفتر آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ٭٭٭٭ خبر ہے کہ ڈی جی خاں میں بنائے گئے شیلٹر کے لئے 36تولئے 50ہزار 292روپے میں خریدے گئے۔ ایک تولیہ گویا ڈیڑھ ہزار روپے کا ٹھہرا۔ شیلٹر کے لئے 120صابر 19ہزار 320روپے میں خریدے گئے۔ صابن کی ایک ٹکیہ بھی 160روپے کی ہوئی۔ سامان سرکاری کنٹریکٹر کی وساطت سے خریدا گیا۔ معلوم ہوا ‘ حکومت غریبوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ مہنگی سے مہنگی ‘ قیمتی سے قیمتی اور معیاری سے معیاری شے خرید کر ان کی نذر کرتی ہے۔ گھٹیا مال پر نہیں ٹرخاتی۔ ویسے ڈیڑھ ہزار کا تولیہ کیسا ہوتا ہو گا؟ اور 160روپے والا صابن لازماً امپورٹڈ ہو گا۔ ٭٭٭٭