بتایا گیا ہے کہ جمہوریت صرف ہمارے ہاں نہیں ،پوری دنیا میں زوال پذیر ہے۔ہر سال15 ستمبر کو جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس برس سویڈن کے V-Demنامی ادارے نے عالمی جمہوریت پر اپنی سالانہ رپورٹ میں مختلف اعداد و شمار اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بتایا ہے کہ عالمی سطح پر جمہوریت اس وقت اُس مقام پر کھڑی ہے جہاں سال1986ء میں تھی۔ تجزیئے کے مطابق دنیابھر میں عدم برداشت پر مبنی رویوں کو فروغ ملا ہے اور جمہوری اقدار کمزور ہوئی ہیں۔ اگرچہ فوجی بغاوتوں کا سلسلہ ماسوائے چند پسماندہ ریاستوں کے متروک ہو چکا ہے، تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں آمریتیںکئی دیگر شکلوں میںپنجے گاڑے کھڑی ہیں۔ چنانچہ بتایا جاتاہے کہ جہاں براہِ راست فوجی حکمرانی کی عالمی قبولیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، وہیں کئی ریاستوں میںغیر منتخب قوتوں کا حکومتوں کے بنانے، چلانے یا گرانے میںپس پشت کردارایک معمول کا امر بن چکا ہے۔ نتیجے میں اس وقت دنیا کی 72%آبادی کسی نہ کسی شکل میں آمرانہ یا جمہوریت نما آمرانہ نظام میں بسر کر رہی ہے۔ اس کے بر عکس کرہ ارض پرمحض 8% لوگ ان معاشروں کے شہری ہیں جنہیں جمہوری کہا جا سکتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ معاشروں کے اندر عدم برداشت، سیاسی مخالفین کو مٹا دینے کی از منہ وسطیٰ والی جبلت اورقومی اداروں کو زیرنگیں لانے کی بے قابو خواہشات پر مبنی رویئے ان معاشروں میں بھی جمہوری اقدار کو نگل رہے ہیں جو سوویت یونین ریاستوں میں رائج ’غیر جمہوری نظام ‘گرانے میں پیش پیش تھے۔ وطنِ عزیز کو جہاں دہشت گردی اور معاشی مشکلات کی شکل میں بقاء کو لاحق کئی خطرات در پیش ہیں، وہیںحالیہ برسوں میں آئین اور قانون کی عملداری خود ایک بڑا چیلنج بن کرسامنے آئی ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں کہ جہاں جمہوری اقدار اور قومی ادارے پہلے ہی مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں،اور جہاں گذشتہ76برسوں سے پورے کا پورانظام الیٹ گروہوں کے ہاتھوں یرغمال رہا ہے،جمہوریت کا مزید کمزور ہونا کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ ریاستیں جو کثیر القومی آبادی پر مشتمل ہوتی ہیں،انہیں مستحکم اور وسیع البنیادجمہوری نظام کے اندر ہی یکجا رکھا جا سکتا ہے۔ ہم کئی عشروں پہلے جمہوری عمل کو روک کر اپنی تاریخ کا ایک المناک باب رقم کر چکے ہیں، جب مٹھی بھر فیصلہ سازوںکی ہٹ دھرمی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی المناک عسکری شکست اورخون آلود بٹوارے کا سبب بنی تھی۔اس ہولناک تجربے کے بعد بھی ہمارے ہاں اقتدار پروہی الیٹ گروہ کسی نہ کسی شکل میںمسلسل قابض رہے کہ جن کے ہاتھوں ملک دو لخت ہوا تھا۔اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ اپنی تمام تر نااہلی،مالی کرپشن اور عوام میں عدم مقبولیت کے باوجود سسٹم پر ان الیٹ گروہوں اور خاندانوں کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزورپڑنے کی بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ دنیائے رنگ وبو میںمگرکسی شے کو ابدی دوام حاصل نہیں، چنانچہ شاہدرہ میں مریم نواز کا جلسہ اور گجو متہ میں شہباز شریف صاحب کا استقبال بتا رہا ہے کہ گلیوں بازاروں میں عوام کا موڈ کیا ہے۔اندریں حالات اگرملک پر قابض طبقہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتا تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں۔تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اس بار عوامی جذبات کے سامنے بند کس قیمت پر باندھا جا ئے گا؟ الیٹ گروہوں کا ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ محض ہم جیسے پسماندہ معاشروں میں مختص نہیں، دیکھا گیا ہے کہ امریکہ جیسی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے الیٹ گروہ ہر حربہ بروئے کار لاتے ہیں۔ضرورت پڑنے پر تمام روایتی سیاست دان اکھٹے ہو جاتے ہیں اور پورے کا پوراسسٹم کسی ’نووارد اجنبی‘ (Outsider) سے میدان خالی کروانے کے لئے سرگرم ہو جاتا ہے۔’ جمہوریتیںکیسے مرتی ہیں‘ نامی کتاب میں امریکی سکالرز، سٹیون لیوٹسکی اور ڈینیئل زیبلاٹ نے بتایا ہے کہ جمہوری کہلائے جانے والے ملکوں میں بھی جمہوریت کا خاتمہ اس وقت ہونا شروع ہو جاتاہے جب الیٹ گروہ اُسی جمہوری راستے (انتخابات) کو مسدود کر دیتے ہیں کہ جس سے وہ خود منتخب ہو کر اقتدار میں آئے تھے۔ سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ دشمنوں کا سا سلوک کرنے لگتے ہیں اوراپنے سیاسی حریفوں کو کچلنے کے لئے ہر غیر اخلاقی اور غیر جمہوری حربے کا استعمال جائز سمجھنے لگتے ہیں۔تاہم مہذب جمہوری معاشروں میں قومی ادارے بالخصوص عدلیہ ان عزائم کی راہ میں آڑے آتی ہے۔چنانچہ اس باب میں آمرسویلین ہو یا فوجی اس کی پہلی کوشش ’ریفری یعنی عدلیہ ‘کو قابو کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد ملکی سلامتی اورخفیہ اداروں کو قابو میں لائے جانے کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔کتاب میںشامل ایک ٹیبل میں آمرانہ مزاج رکھنے والے حکمرانوں کی جن چار’خصوصیات‘ کی نشاندہی کی گئی ہے،اُن میں آئین کی پامالی ، عام انتخابات کو پسِ پشت یا التواء میں ڈالے جانے کی روش، شخصی آزادیوں کو کچلنے کے علاوہ مخالف سیاست دانوں کو ملک دشمن اور غدارقرار دیئے جاناشامل ہے۔ ’ریفری کی تبدیلی‘ یعنی اداروں کی تباہی کے بعد دوسرا مرحلہ ’ کھلاڑیوں سے میدان خالی کرنا ‘ ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں سیاسی مخالفین کو عدالتوں سے نا اہلی، قید وبند،جبر ، لالچ اور بلیک میلنگ حتی کہ پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے منظر نامے سے ہٹانا مقصود ہوتا ہے۔ تیسرے اور حتمی مرحلے میں غیر موثرکر دیئے جانے اداروں کے ذریعے ’کھیل کے قوانین ‘ کو نئے سرے سے لکھا جاتا ہے۔ انتخابات، انسانی حقوق، معاشیات اور احتساب جیسے اہم معاملات پر پارلیمنٹ حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق قانون سازی کرتی ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے حکمران گروہ کے مطیع، عوامی جواب دہی سے لاتعلق اورخود سر ہوجاتے ہیں۔جبکہ عدلیہ خاموشی سے بیٹھی سب تماشا دیکھتی ہے۔بتایا گیاہے کہ آج مستحکم جمہورتیں بھی انہی عوامل کی بناء پرزوال کا شکار ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جمہوری اقدار کے بالعموم زوال کے بعد ’جمہوریت ‘ آج اُس مقام پر کھڑی ہے جہاں سال1986ء میں تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس مقام پرکھڑے ہیں؟دیکھنا یہ ہے کہ گزرے عشروں ہم آگے کی طرف بڑھے ہیں ،اسی جگہ پرکھڑے ہیں یا کہ جمہوری اقداراور انسانی حقوق کے باب میں زوال اور پستی کا شکار ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے قومی ادارے بشمول پارلیمنٹ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن ،سال 1986 ء کے مقابلے میںآج زیادہ آزاد، خود مختار، مستحکم اور وسیع البنیادہیں؟ بد قسمتی سے قرائن تو یہی بتاتے ہیں کہ قومی معکوسی سفر ایک آسیبی دائرے کے اندر مسلسل جاری ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم کچھ نیا دیکھتے ہیں ۔ عام حالات میںہمارے چند ’میڈیا سٹارز‘ کو ہمارے لئے تفریحِ طبع کا سبب ہونا چاہیئے۔مگرافسوس کہ اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پائوں مارتی یہ بدنصیب قوم فی الوقت ایسی کسی عیاشی کی متحمل ہونہیں سکتی۔